آیات 105 - 106
 

مَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ لَا الۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ کفر اختیار کرنے والے خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین، اس بات کو پسند ہی نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، حالانکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کراتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت نازل کرتے ہیں، کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ؟

تشریح کلمات

نَنۡسَخۡ :

(ن س خ ) نسخ ایک چیز کو زائل کر کے اس کی جگہ دوسری چیزلانا۔ نَسَخَتِ الشَّمْسُ الظِّلَّ دھوپ نے سائے کو زائل کر دیا۔ تَنَاسُخِ الاَزْمِنَۃِ ایک قوم کا گزر جانا اور اس کی جگہ دوسری قوم کا آنا۔

نُنۡسِہَا:

(ن س ی) اَنْسَاء، نَسِیْ سے ہے۔ یعنی فراموش کرنا۔ یا پھر نَسَائْ سے ہے، یعنی تاخیر۔ عرب کہتے ہیں: اَنْسَاتُ الْاِبِلَ عَنِ الْحَوْضِ میں نے اونٹ کو حوض سے پیچھے کر دیا۔ اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الۡکُفۡرِ ۔۔۔ {۹ توبہ: ۳۷} (حرمت کے مہینوں میں) تقدیم و تاخیر بے شک کفر میں اضافہ کرنا ہے۔

تفسیر آیات

قرآن امت مسلمہ کو اس بات سے آگاہ کر رہا ہے کہ اس کا دشمن حسد کی آگ میں جل رہا ہے اور وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ امت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیرو برکت نازل ہو۔ وہ اپنے آپ کو خدا کی برگزیدہ قوم تصور کرتے اور سمجھتے ہیں کہ اللہ کی رحمتیں صرف انہی سے مخصوص ہیں۔ دوسرے مشرکین میں بھی یہودیوں والی صفات پائی جاتی ہیں:

وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی {۲ بقرہ : ۱۱۱}

اور وہ کہتے ہیں: جنت میں یہودی یا نصرانی کے علاوہ کوئی ہرگز داخل نہیں ہو سکتا۔

نسخ: آسمانی شریعتوں میں احکام کی منسوخی ایک مسلمہ امر ہے۔ اسلامی شریعت کے احکام میں بھی نسخ واقع ہوا ہے۔ کیونکہ یہ شریعت انسانی تربیت و ارتقا کے لیے ہے اور تربیت کا مطلب ہی تدریجی ارتقا ہے۔ اس لیے احکام میں رد و بدل ایک طبعی امر ہے۔ جس طرح پوری انسانی تاریخ میں مجموعی طور پر معاشروں کے بدلنے سے شریعتیں بدلتی رہی ہیں، اسی طرح ایک شریعت میں بھی جدید حالات کے مطابق بعض تبدیلیوں کا آنا ایک لازمی امر ہے۔

نسخ کی تعریف: اصطلاح میں نسخ سے مراد کسی موجودہ شرعی امر کو اس کی مدت ختم ہونے پر اٹھا لینا ہے۔ {البیان ص ۲۷۲}

۱۔ جب شریعت میں نسخ واقع ہوتا ہے تو اس کا تعلق احکام سے ہوتا ہے، لہٰذا کسی آیت کے نسخ کا یہ مطلب نہیں کہ آیت ہر لحاظ سے منسوخ ہو گئی ہے، بلکہ آیت جس حکم پر مشتمل ہے، وہی حکم منسوخ ہو گا، جب کہ آیت کا اعجازی پہلو برقرار رہے گا۔

۲۔ منسوخ ہونے والا حکم در حقیقت ایک محدود مدت کے لیے ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ناسخ کے آنے کے بعد اس کے عارضی ہونے کا انکشاف ہوتا ہے۔ لیکن کبھی حکم کے ساتھ ہی پہلے سے اس بات کا اشارہ موجود ہوتا ہے کہ یہ وقتی ہے اور بعد میں نسخ واقع ہونے والا ہے۔ مثلاً فَاعۡفُوۡا وَ اصۡفَحُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ {۲ بقرہ : ۱۰۹} سو آپ درگزر کریں اور نظر انداز کر دیں یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ بھیج دے، میں اشارہ ہے کہ درگزر کرنے کا حکم عارضی ہے اور آئندہ نسخ ہونے والا ہے۔

۳۔ آیت سے ظاہر ہے کہ ناسخ ان تمام مصلحتوں پر مشتمل ہو گا جو منسوخ میں پائی جاتی ہیں یا ناسخ میں مصلحت زیادہ ہو گی۔

اَوۡ نُنۡسِہَا علماء نے نَسْخ اور اِنْسَاء (بھلوا دینا) میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ حکم شرعی کے ظاہری نفاذ کا اٹھانا نَسْخ اور اسے انسانی ذہن سے اٹھا لینا اَنْسَاء ہے۔

عموماً نسخ کی تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں: نسخ حکم، نسخ حکم مع التلاوۃ اور نسخ تلاوت ۔ اس آیت میں نسخ کی پہلی اور دوسری قسم کا بیان ہے۔

نسخ تلاوت کے بارے میں ہم نے مقدمہ میں بتا دیا کہ اس کے نسخ پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے سوائے آحاد روایات کے اور اس بات پر تمام علمائے مسلمین کا اتفاق ہے کہ آحاد سے نسخ قرآن ثابت نہیں ہوتا۔

نسخ کی پہلی قسم واقع ہونے پر سب کا اتفاق ہے، لیکن نسخ کی دوسری قسم یعنی اِنْساء کے وقوع پر کوئی دلیل یا مثال موجود نہیں ہے۔

جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل آیت ۸۶۔ ۸۷ میں فرمایا:

وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا

اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سلب کرلیں پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔ سوائے آپ کے رب کی رحمت کے، آپ پر یقینا اس کا بڑا فضل ہے۔

اس آیت کی رو سے رسول کریم (ص) پر اللہ کی رحمت اور فضل کا تقاضا یہ ہوا کہ وحی کا کوئی حصہ رسول ؐ کے ذہن سے سلب نہیں ہوا۔

اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی اسی طرح ہے: وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ {۱۶ نحل: ۹} اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کرتا۔

مگر اللہ نے ایسا نہیں چاہا یعنی سب کی ہدایت نہیں کی کہ کوئی کافر نہ رہے، کیونکہ ایسا کرنا جبر کے ساتھ ممکن تھا۔ جبری ہدایت اللہ کو قبول نہیں ہے۔

بلکہ اِنْساء کے واقع نہ ہونے پر دلیل موجود ہے کہ اللہ تعالی نے ضمانت دی ہے کہ رسول(ص) کبھی فراموشی میں مبتلا نہیں ہوں گے۔

سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ۔۔۔۔ {۸۷ اعلیٰ: ۶۔ ۷}

(عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے مگر جو اللہ چاہے۔۔۔

واضح رہے کہ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ سے نسیان کا وقوع مراد نہیں بلکہ اس پر خدا کی قدرت کا اظہار مراد ہے کہ اگر یہ عمل انجام دیناچاہے تو اللہ کے لیے ناممکن نہیں۔

لہٰذا وہ تمام روایات و اقوال جو قرآن کی اس نص صریح کے منافی ہیں، باطل اور ناقابل اعتنا ہیں بلکہ ان باتوں سے رسول (ص) کی رسالت مخدوش ہوتی ہے۔ مثلا تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے ذیل میں ابن عباس کی طرف یہ قول منسوب ہے۔

کان مما ینزل علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الوحی باللیل و ینساہ بالنھار۔

کچھ وحی ایسی بھی ہوتی تھی جو رات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوتی تھی اور دن کو بھول جاتے تھے۔

ابن جریر نے حسن سے یہ قول نقل کیا ہے:

ان نبیکم قرأ قراٰنا ثم نسیہ ۔ تمہارے نبیؐ نے کچھ قرآن پڑھا اور بھول گئے۔

اسی طرح یہ بات بھی قابل تعجب ہے کہ بعض آحاد روایت کی بنا پربہت سی عبارتوں کو قرآن کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ جیسے آیہ رجم الشیخ والشیخۃ اذا زَنَیا فارجموھما البتّۃ {صحیح بخاری۳ : ۶۸ طبع مصر} پھر کہتے ہیں ان کو نسخ تلاوت کے ذریعہ اٹھا لیا گیا۔

اس سے زیادہ قابل تعجب یہ ہے کہ کہتے ہیں: ان آیات کو قرآن سے عصر حضرت ابوبکر میں اٹھا لیا گیا تھا۔ چنانچہ تفسیر روح المعانی کے مقدمہ صفحہ ۳۴ میں آپ کو یہ عبارت ملے گی:

نَعَمْ اُسْقِطَ زَمَنَ الصِّدِّیْقَ ما لَم یَتَواتَر و ما نُسِخَتْ تلاوتُہ ۔ ہاں صدیق کے زمانے میں وہ آیات جو متواتر نہ تھیں اور جن کی تلاوت منسوخ ہو گئی تھی حذف کی گئیں۔

بعینہ یہی عبارت شیخ الحدیث مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی نے تفسیر بیضاوی کے مقدمہ میں نقل کی ہے۔

اگر نُنۡسِہَا میں اِنْسَاء سے مراد تاخیر لی جائے تو آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے: ہم کسی آیت کو منسوخ نہیں کرتے یا اسے مؤخر نہیں کرتے۔۔۔۔۔

شان نزول: یہودیوں کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی تھا : اگر محمد(ص) خدا کے رسول ہوتے تو ایک بات پر قائم رہتے۔ یہ اپنے اصحاب کو ایک بات کا حکم دیتے ہیں پھر کچھ عرصے بعد یہ حکم واپس لے لیتے ہیں۔ وہ آج کچھ کہ رہے ہوتے ہیں کل کچھ اور۔ یہ قرآن محمد(ص) کا کلام ہے اور ان کا خود ساختہ ہے کیونکہ اس میں تضادات موجود ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی۔ ایک اور آیت میں بھی ان کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے:

وَ اِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ ۙ وَّ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَرٍ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ {۱۶ نحل : ۱۰۱}

اور جب ہم ایک آیت کو کسی اور آیت سے بدلتے ہیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا نازل کرے، یہ لوگ کہتے ہیں: تم تو بس خود ہی گھڑ لاتے ہو، درحقیقت ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

تائید مزید

۱۔ خود یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کی شریعت سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہے۔

۲۔ خود توریت میں بہت سے احکام منسوخ ہوئے ہیں۔ مثلاً سفر تکوین باب ۲۲، حضرت ابراہیم (ع) کے لیے اپنے فرزند کے ذبح کا حکم منسوخ ہو گیا۔

۳۔ نسخ میں در حقیقت حکم خدا نہیں بدلتا بلکہ علم بشر کے لحاظ سے نسخ واقع ہوتا ہے۔ اللہ کا حکم شروع ہی سے عارضی ہو تا ہے، البتہ انسان کو نسخ کے بعد پتہ چلتا ہے کہ عارضی تھا۔

۴۔ اللہ کا حکم بندوں کی مصلحتوں اور مفاد کے مطابق ہوتا ہے۔ نسخ میں در حقیقت مصلحتیں بدلتی ہیں، حکم نہیں بدلتا۔ جس طرح مریض کی کیفیات کے بدلنے سے طبیب کا نسخہ بدلتا ہے، لیکن درحقیقت علاج ایک ہی ہوتا ہے، جو منسوخ نہیں ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ شریعت میں نسخ کا تعلق احکام سے ہوتا ہے جب کہ آیت کاا عجازی پہلو منسوخ نہیں ہوتا۔

۲۔ نسخ ایک الٰہی سنت ہے جو تمام آسمانی شریعتوںمیں جاری رہی ہے۔

۳۔ منسوخ شدہ حکم علم خدا میں شروع سے ہی عارضی ہوتا ہے، لیکن انسان کونسخ کے بعد اس کا پتہ چلتا ہے۔

۴۔ انسانی تربیت اور تدریجی ارتقا کے لیے احکام میں رد و بدل ایک طبیعی امر ہے۔

۵۔ اللہ جس حکم کومنسوخ کرتا ہے، اس کی جگہ اس سے بہتر یا اس جیسا حکم لاتا ہے۔

تحقیق مزید: آیت ۱۰۶: الکافی ۱: ۳۲۸۔ تفسیر العیاشی ۱: ۵۵۔ ۵۶۔ العمدۃ ص ۲۵۹۔ غیبۃ الطوسی ص ۲۰۰۔


آیات 105 - 106