آیت 104
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ اے ایمان والو!راعنا نہ کہا کرو بلکہ (اس کی جگہ) انظرنا کہا کرو اور (رسول کی باتیں) توجہ سے سنا کرو اور کافروں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔

تشریح کلمات

رَاعِنَا:

(ر ع ی ) مراعاۃ ۔ ہماری رعایت کیجیے۔ رعایت غفلت اور بے توجہی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے۔

انۡظُرۡنَا:

(ن ظ ر) ہمیں مہلت دیجیے۔ چنانچہ انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ {۵۷ حدید: ۱۳} میں بھی مہلت و انتظار کا معنی ہے۔ یعنی بروز قیامت مؤمنین سے منافق یہ کہیں گے: ہمیں مہلت دو کہ ہم تمہارے نور سے کچھ حاصل کریں۔

تفسیر آیات

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قرآن مجید میں تقریباً اسی (۸۰) مقامات پر ان الفاظ میں مؤمنین سے خطاب کیا گیا ہے۔ یہ سب آیات مدنی ہیں۔ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خطاب کا یہ انداز اس امت کے لیے ایک اعزاز ہے، ورنہ دوسری امتوں کو قرآن نے لفظ قوم سے یاد کیا ہے۔ جیسے قوم نوح، قوم ہود اور قوم عاد وغیرہ۔ علامہ فرماتے ہیں:

فَالتَّعْبِیْرُ بِلَفْظَۃِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِمَّا یَخْتَصُّ التَشَرُّفَ بِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔ {المیزان ۱: ۲۴۵}

الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے ذریعے تعبیر کرنے کا مقصد خاص طور پر اس امت کو شرف بخشنا ہے۔

ابو نعیم نے الحلیہ میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا (ع) نے فرمایا:

مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ اٰیَۃً و فِیْھَا يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِلّٰا وَ عَلِیٌّ رَاْسُہَا و اَمِیْرُھَا ۔ {بحار الانوار ۳۵ : ۳۵۰}

خدا نے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے ساتھ جو بھی آیت نازل کی ہے حضرت علیؑ اس کے سردار اور امیر ہیں۔

لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا

شان نزول: رسول خدا (ع) جب اسلامی احکام بیان فرماتے تواکثر ایسا ہوتا کہ بعض افراد سن یا سمجھ نہیں پاتے تھے۔ اس وقت وہ حضور(ع) کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کہتے رَاعِنَا یعنی ہماری رعایت فرمائیں کہ ہم سمجھ نہیں سکے۔ ہمارا لحاظ فرمائیے اور دوبارہ ارشاد فرمائیے۔

بعض یہودی بھی ان علمی مجالس میں شریک ہوتے تھے۔ وہ اس لفظ کو شرارتاً حضور(ع) کی شان میں توہین کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ بعض مفسرین کے نزدیک وہ رَاعِنَا کو اَلرَّعُوْنَۃُ کے حوالے سے احمق اور بے وقوف کے معنوں میں لیتے تھے اور بعض دیگر مفسرین کے مطابق وہ رَاعِنَا کی بجائے رَاعِیْنَا ہمارا چرواہا کہتے۔

امام موسیٰ ابن جعفر علیہما السلام سے مروی ہے کہ لفظ راعینا عبرانی یہودی زبان میں ایک دشنام ہے۔ یہودی اس لفظ کو اس معنی میں استعمال کرتے تھے۔ {تفسیر الامام ص ۴۷۷}

علامہ شیخ محمد جواد بلاغی نجفی رحمۃ اللہ علیہ جنہیں عبرانی زبان پر عبور حاصل تھا، فرماتے ہیں:

عبرانی زبان میں رَاعِیی شریر کو کہتے ہیں اور نَا ضمیر متکلم کو واؤ کے ساتھ ملائیں تو رَاعِیْنُو کا کلمہ بن جاتا ہے۔ یعنی ہمارا شریر چنانچہ یہ لفظ اپنے معنوں میں توریت کے سفر ۵ فصل اول اور مزامیرفصل ۶۴ اور ۶۵ میں موجود ہے۔ {تفسیر آلاء الرحمن ج اول}

اہم نکات

۱۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے شاگردوں کو آداب تعلم سکھائے جا رہے ہیں کہ بے ادبی اور اہانت پر مشتمل الفاظ استعمال نہ کرو۔

۲۔ مقام رسول(ص) دیکھیے کہ اللہ کے لیے اشاروں اور کنایوں میں بھی رسول(ص)کی توہین قابل برداشت نہیں۔

۳۔ دین و ملت کی توہین کا موقع فراہم کرنا بھی ایک سنگین جرم ہے۔

۴۔ ملت اسلامیہ کی اقتصادی،عسکری اور تہذیبی کمزوری کا سبب بننا بھی یہودی سازش کا حصہ بننے کے مترادف ہے۔

تحقیق مزید:

کئی طُرُق سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

ما انزل اللّٰہ جل ذکرہیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا الا و علی امیرھا ۔ اللہ نے جب بھی یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا نازل کیا ہے تو علی (ع) اس کے امیر ہوں گے۔

دیگر لفظوں میں آیا ہے: الا و علی امیرھا و شریفھا۔

اس کے راوی درج ذیل شخصیات ہیں:

۱۔ حضرت ابن عباس:ملاحظہ ہو تفسیر الفرات ص ۴۷۔ شواھد التنزیل ۱: ۳۰۔ اسی آیت کے ذیل میں ابن عباس سے سعید بن جبیر، عکرمہ، مجاہد، عطاء، عبایہ، ابو مالک نے روایت کی ہے}

۲۔ حضرت حذیفہ: کشف الغمہ ۱ : ۳۱۷۔ المناقب ۳: ۵۲۔بحار الانوار ۳۷: ۳۳۳

اس کے علاوہ حافظ نطنزی نے اپنی کتاب الخصائص میں تین طُرُق سے اور ابن مردویہ نے اپنی کتاب المناقب میں دس (۱۰ ) سے زیادہ طُرُق سے اور محمد بن العباس نے ما نزل من القرآن فی النبی و آلہ میں بیس سے زیادہ طُرُق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو الیقین ص ۴۶۱۔

تفسیر مجاہد میں آیا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے امیر علی علیہ السلام ہیں۔ اس طرح اللہ نے قرآن میں ۸۹ مرتبہ علی (ع) کو امیر المؤمنین کہا ہے واضح رہے کہ قرآن میں یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۸۹ مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو الصراط المستقیم ۳: ۵۳۔


آیت 104