آیات 102 - 103
 

وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ ٭ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ۟ؕ وَ لَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔اور سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین جو کچھ پڑھا کرتے تھے یہ (یہودی) اس کی پیروی کرنے لگ گئے حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین کفر کیا کرتے تھے جو لوگوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتے تھے اور وہ اس (علم) کی بھی پیروی کرنے لگے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کیا گیا تھا، حالانکہ یہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک اسے خبردار نہ کر لیں کہ (دیکھو) ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، کہیں تم کفر اختیار نہ کر لینا، مگر لوگ ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھ لیتے تھے جس سے وہ مرد اور اس کی زوجہ کے درمیان جدائی ڈال دیتے، حالانکہ اذن خدا کے بغیر وہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے اور یہ لوگ اس چیز کو سیکھتے تھے جو ان کے لیے ضرر رساں ہو اور فائدہ مند نہ ہو اور بتحقیق انہیں علم ہے کہ جس نے یہ سودا کیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کاش وہ جان لیتے کہ انہوں نے اپنے نفسوں کا بہت برا سودا کیا ہے۔

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَمَثُوۡبَۃٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ خَیۡرٌ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۳﴾٪

۱۰۳۔ اور اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے پاس اس کا ثواب کہیں بہتر ہوتا، کاش وہ سمجھ لیتے۔

تشریح کلمات

الشَّیٰطِیۡنُ:

شَیْطَان کی جمع اور شطن سے ماخوذ ہے۔ یعنی حق سے دوری اختیار کرنے والا۔ یہاں ابلیس نہیں بلکہ دوسرے سرکش عناصر مراد ہیں۔ جب یہ لفظ جمع کی صورت میں آئے تو اس سے شیاطین جن اور شیاطین انس دونوں مراد لیے جا سکتے ہیں۔

مُلۡک:

( م ل ک ) حکومت۔ سلطنت۔ بادشاہت۔

سُلَیۡمٰنَ:

عبرانی لفظ ہے۔ سلیمان(ع) حضرت داؤد علیہ السلام کے چار فرزندوں میں سے ایک کا نام ہے۔ وہ غالباً ۹۹۰ قبل مسیح مبعوث برسالت ہوئے۔ سلیمان (ع) شام و فلسطین کے علاوہ مشرق میں عراق اور مغرب میں مصر تک کے وسیع علاقے پر حکمران رہے۔

السِّحۡرَ:

( س ح ر )کسی بات کو مسخ کر کے دکھانا۔ دھوکا دینا۔ جادو۔

بَابِل:

ایک قدیم مملکت کے دار الحکومت کا نام ہے۔ یہ تاریخی شہر بغداد سے ۶۰ میل جنوب کی طرف موجودہ شہر حلہ کے قریب آباد تھا۔ اس کے شہرہ آفاق آثار قدیمہ آج بھی اس شہر کے تمدن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں کلدانی قوم آباد تھی۔ ان کی سلطنت ۳۰۰۰ قبل از مسیح موجود تھی۔ ۲۱۰۵ قبل از مسیح میں سوموا بوم اموری نے بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ اس سلسلے کا چھٹا بادشاہ حمورابی تھا، بعض کے مطابق اس نے سب سے پہلے دنیا میں قوانین حکومت وضع کیے۔ برج بابل اور اس کے معلق باغات دنیا کے سات عجائبات میں شامل ہیں۔

ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ

دو فرشتوں کے نام ہیں جو اہل بابل کی اصلاح و ہدایت کے لیے انسانی قالب میں بھیجے گئے تھے۔

فِتْنَۃٌ:

( ف ت ن ) امتحان و آزمائش۔ لغت میں سونے کو آگ میں ڈال کر اس کا کھوٹ الگ کرنا فتنہ کہلاتا ہے۔ فتانہ سے مراد وہ پتھر ہے جس سے سونے اور چاندی کو پرکھا جاتا ہے۔

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۔۔۔ {۸ انفال : ۲۸}

اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔

ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ۔ {۲۹ عنکبوت : ۲}

کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے۔

واضح رہے کہ اللہ کی طرف سے امتحان و آزمائش کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اچھے اور برے کو پہچاننا چاہتا ہے، کیونکہ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہم سے قریب اور علام الغیوب ہے۔ اللہ کے امتحان سے خود انسان کا جوہر نکھرتا ہے۔ وہ ارتقا و تکامل کے لائق اور عملی اعتبار سے ثواب و عقاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ورنہ فقط علم خدا سے نہ تو ارتقائی مراحل طے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ثواب و عقاب کا استحقاق پیدا ہوتا ہے۔

فتنۃ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو امتحان و آزمائش کہلاتا ہے اور کسی حکمت و مصلحت پر مبنی ہوتا ہے، لیکن جب یہ عمل بندوں سے منسوب ہو توقابل مذمت مفہوم بن جاتا ہے اور فساد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے: وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۔۔۔ {۲ بقرہ : ۱۹۱} فتنہ قتل سے بھی زیادہ برا ہے۔

اِذۡن:

( ا ذ ن ) اجازت دینا۔ مباح قرار دینا۔ امر کرنا۔ حکم دینا۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ سے منسوب ہو تو ارادہ، مشیت اور الٰہی دستور کے معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔

مَثُوۡبَۃٌ:

( ث و ب ) ثواب۔کسی چیز کا مناسب اور شائستہ مقام۔ منزل مقصود کی طرف بڑھنا۔

روئی سے دھاگہ تیار کرنے کے بعد مختلف مراحل سے گزار کر اس سے جو کپڑا تیار ہوتا ہے اسے ثوب کہتے ہیں، کیونکہ دھاگہ اپنی غایت اور منزل تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔

جزائے عمل کو بھی ثواب کہنے کی وجہ یہی ہے کہ انسانی عمل منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے: وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ ۔ {۳ آل عمران :۱۹۵} اور اللہ ہی کے پاس بہترین جزا ہے۔

تفسیر آیات

وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ یہ یہودی وحی خدا کی اتباع کرنے کی بجائے سفلی علوم کے شیدائی ہیں، جنہیں ان لوگوں نے شیاطین سے اخذ کیا ہے۔

احادیث کے مطابق حضرت سلیمان (ع) کے عہد میں جب سحرو جادو عام ہونے لگا تو حضرت سلیمان (ع) نے ان تمام اوراق و اسناد کو ضبط کر لیا جن پر جادو تحریر تھا اور انہیں ایک جگہ محفوظ کر لیا۔ آپ (ع) کی وفات کے بعد کچھ افراد ان تحریروں کو منظر عام پر لے آئے۔ اس طرح جادو پھر سے رواج پکڑنے لگا۔ کچھ لوگوں نے اس سے یہ عندیہ لیا کہ سلیمان (ع) پیغمبر نہ تھے بلکہ انہوں نے جادو کے ذریعے جن و انس کو مسخر کیا ہوا تھا۔ یہودیوں کے ایک فرقے نے بھی یہی نظریہ اختیار کیا۔ اس زعم باطل کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا ۔۔۔ سلیمان نے کفر نہیں کیا جب کہ شیاطین کفر کیا کرتے تھے۔

سحر کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ یہ ایک خیالی فریب ہے:

یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی ۔۔۔۔ {۲۰ طہٰ :۶۶}

۔۔۔ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہوئیں۔

نیز سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا:

سَحَرُوۡۤا اَعۡیُنَ النَّاسِ وَ اسۡتَرۡہَبُوۡہُمۡ ۔۔۔ {۷ اعراف :۱۱۶}

لوگوں کی نگاہوں کو مسحور اور انہیں خوفزدہ کر دیا۔

ان دو آیات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سحر ایک خیالی فریب اور نظروں کا دھوکہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ کا جملہ وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ پر عطف ہوتا ہے جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہودی، عہد سلیمان کے سفلی علوم اور ان چیزوں کی پیروی کرتے ہیں جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھیں۔ بعض مفسرین نے اس جملے کوالسحر پر عطف کیا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ بنتا ہے :شیطان لوگوں کو جادو اور ان چیزوں کی تعلیم دیتے تھے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتاری گئیں۔ البتہ پہلی ترکیب سیاق آیت کے مطابق ہے۔

بَابل: بابل اس دور میں جہاں تمدن کا مرکز تھا، وہاں سحر و جادو کا بھی گڑھ تھا۔ دنیا میں خرافات کی ابتدا یہیں سے ہوئی۔ یہ ایک اہم تجارتی مرکز اورپوری دنیا سے مربوط تھا۔ لہٰذا انبیائے کرام (ع) کی توجہ بھی یہیں پر مرکوز رہی۔

حضرت ابراہیم (ع) کی چراگاہ بانیتا قادسیہ میں اب بھی بابل کے قریب موجود ہے اور نمرود کا وہ ٹیلہ بھی اسی شہر میں موجود ہے، جہاں حضرت ابراہیم(ع) کو آگ میں پھینکا گیا تھا۔ اسی طرح مسجد کوفہ اور مسجد سہلہ میں مقام ادریس و ابراہیم علیہما السلام ابھی تک موجود ہیں۔

حضرت امام علی (ع) نے کوفہ کے بارے میں فرمایا: انہا سرۃ بابل ۔ {بظاہر سرأۃ ہے} یہ جگہ بابل کی پشت ہے یعنی بابل سے متصل جگہ ہے۔

حضرت ہود اور صالح علیہما السلام کی قبور کوفہ سے باہر معروف و مشہور ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام جب خوارج کے واقعے میں بابل پہنچے تو آپ (ع) نے فرمایا:

ھَذِہِ اَرْضٌ مَلْعُوْنَۃٌ قَدْ عُذِّبَتْ فِی الدَّھْرِ مَرَّتَیْنِ وَ ھِیَ تَتَوَقَّعُ الثَّالِثَۃَ وَ ھِیَ اِحْدَی المُؤْتَفِکَاتِ وَ ھِیَ اَوَّلُ اَرْضٍ عُبد فِیْھَا وَثَنٌ ۔ {مواہب الرحمن ۱: ۳۸۶}

یہ ملعون سر زمین ہے جو دو بار عذاب میں مبتلا ہوئی اور تیسری دفعہ کی توقع ہے اور یہ الٹی ہوئی بستیوں میں سے ایک ہے اور یہی وہ پہلی سر زمین ہے جس میں بت پرستی ہوئی۔

ہاروت ماروت: اکثر مفسرین کے نزدیک وَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ سے مراد یہ ہے کہ ان دو فرشتوں پر جادو کا ہنر نازل ہو اتھا۔ اس پر دو اعتراض کیے گئے ہیں:

نزول سحر: اکثر مفسرین کے نزدیک وَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ سے مراد یہ ہے کہ ان دو فرشتوں پر جادو کا ہنر نازل ہوا تھا۔ اس پر دو اعتراض کیے گئے ہیں:

۱۔ سحر ایک ناپاک عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کفر قرار دیا ہے۔ ایسی چیز فرشتوں پر کیسے نازل ہو سکتی ہے اور فرشتے اسے لوگوں میں کیسے پھیلا سکتے ہیں؟۔

۲۔ اگر مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ کی طرح وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بھی سحر ہے تو یہ لازم آتا ہے کہ سحر کو سحر پر عطف کیا گیا ہے اور معطوف و معطوف علیہ میں کسی قسم کی مغایرت نہ ہونے کی وجہ سے یہ عطف الشیء علی نفسہ ہے۔

پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ سحر کا عمل ناپاک ہے، نہ کہ سحرکا سیکھنا، خاص کر اس صورت میں جب سحر کا سیکھنا ابطال باطل (باطل کو غلط ثابت کرنے) کے لیے ہو۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ یہ دونوں فرشتے تنبیہ کے طور پر تعلیم دیتے تھے، دعوت کے طور پر نہیں۔ {تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں بحار الانوار ۵۶ : ۳۰۳} یعنی یہ فرشتے سحر کے پوشیدہ اسباب سے آگاہ کرتے تھے اور ان پر عمل کرنے سے روکتے تھے۔ اسی لیے یہ علم ان کے لیے آزمائش بن گیا۔ فرشتے برملا یہ کہتے تھے: اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ۔ ہم تو صرف آزمائش ہیں، پس کفر اختیار نہ کرو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی کے ہاتھ میں طاقت آ جائے تو یہ اس کے لیے امتحان ہے۔ چنانچہ مغرب کے مادہ پرست انسان کے ہاتھوں میں ایٹمی طاقت ایک امتحان ہے کہ آیا وہ اس قوت کو انسانی خدمت کے لیے استعمال کرتا ہے یا اس سے انسانی ہلاکت کا سامان فراہم کرتا ہے۔

دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے: فلسطین اور بابل جادوگری کے دو اہم مراکز رہے ہیں جو ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے۔ قرآن نے معاصر یہودیوں کو جادو کی دونوں اقسام کا وارث قرار دیا ہے۔ چنانچہ وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ کہکر انہیں فلسطینی یہودیوں کی جادوگری کا وارث اور وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ سے بابل کے جادو کا عامل قرار دیا۔ البتہ دونوں اقسام کے جادو منبع اور مصدر کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ پہلے سِحْر کا منبع شیاطین ہیں اور دوسرے کا منبع بابل کے دو فرشتے ہیں۔ پھرغرض و غایت کے لحاظ سے بھی مغایرت پائی جاتی ہے۔ یعنی شیاطین کا جادو ترویج باطل اور بابل کے فرشتوں کا جادو حق و باطل میں تمیز کے لیے تھا۔

ممکن ہے کہ ان فرشتوں کو جو علم دیا گیا تھا وہ سحر اور جادو نہ ہو بلکہ اس کی نوعیت مختلف ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان پر آصف بن برخیا کے علم عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ {۲۷ نمل : ۴۰} کی طرح نازل کیا گیا ہو جس کے اثرات کا مرتب ہونا اذن خدا پر موقوف ہے۔ اس بات کی تائید آیت کے اس حصے سے بھی ہوتی ہے:

وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ

حالانکہ اذن خدا کے بغیر وہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے۔

اور سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن یہودیوں کے سیاہ جرائم کے وہ فراموش شدہ صفحات بھی کھول کر بیان فرما رہا ہے، جن سے یہودیت کی اصلیت اجاگر ہونے کے ساتھ ساتھ رسول امی (ص) کی رسالت کا معجزہ بھی ثابت ہوتا ہے۔

وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ

حالانکہ یہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک اسے خبردار نہ کر لیں کہ (دیکھو) ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، کہیں تم کفر اختیار نہ کر لینا۔

ابطال سحر کی تعلیم اس شرط کے ساتھ دی جا رہی تھی کہ اسے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس علم کا سیکھنا ایک امتحان تھا اور امتحان خیر و شر دونوں ذرائع سے لیا جاتا ہے۔

ارشاد الٰہی ہے:

وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ۔۔۔۔ {۲۱ انبیاء : ۳۵}

اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں۔

لہٰذا خیر (اولاد، دولت اور جاہ و سلطنت) اور شر (مرض، افلاس وغیرہ) دونوں ہی ذریعہ امتحان ہیں۔ ابطال سحر کے سلسلے میں جادو کے مخفی اسباب کا علم بھی دو دھاری تلوار کی مانند ہے، جس سے صحیح کام بھی لیا جا سکتا تھا اور غلط بھی۔

اس جملے میں ان فرشتوں پر یہودیوں کی طرف سے عائد کردہ الزامات کا جواب بھی ہے کہ یہ دونوں احکام خداوندی کے مطابق عمل کرتے تھے اور لوگوں سے خیر کا عہد لے کر انہیں اس علم کی تعلیم دیتے تھے۔

ان دونوں فرشتوں سے متعلق اسرائیلیات میں ایک حکایت مشہور تھی جس کا خلاصہ یہ ہے:

انہیں اللہ تعالیٰ نے انسانی جذبات دے کر زمین پر بھیجا تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ اگر وہ بھی انسان ہوتے تو گناہ سے نہ بچ سکتے۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔ بابل کی زہرہ نامی ایک فاحشہ عورت سے ان کے غلط تعلقات استوار ہوئے اور وہ اسی عورت کے ساتھ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے۔

اسی بنا پر زہرہ نامی ستارے کے بارے میں بے بنیاد باتیں گھڑی گئیں۔

مقام تعجب ہے کہ بعض مسلمان مصنفین نے بھی اس بے بنیاد داستان کو بڑے اہتمام سے نقل کیا ہے۔

چنانچہ علامہ سیوطی نے اپنی تفسیردر منثور میں یہ بے بنیاد داستان، پچیس کے قریب اسناد سے نقل کی ہے۔

فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ مگر لوگ ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھ لیتے تھے جس سے وہ مرد اور اس کی زوجہ کے درمیان جدائی ڈال دیتے۔

دین و مذہب کی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان محبت اور ربط قائم ہو۔ خاص طور پر عائلی نظام میں محبت اور ہم آہنگی کی فضا، نظام تمدن میں استحکام اور معاشرتی اصلاح کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہودی پست فطرت ہونے کی وجہ سے اس بنیادی اصول کو نہ صرف ترک کرتے تھے بلکہ اسے ختم کرنے کے لیے بلا تردد ہر وہ ذریعہ اور طاقت، جو ان کے ہاتھ آئے، استعمال کرتے تھے۔

حالانکہ وہ اس سحر کے ذریعے اذن خدا کے بغیر کسی کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے۔ یعنی انہیں عام لوگوں سے ہٹ کر کوئی طاقت نہیں دی گئی تھی بلکہ انہیں جادو کے مخفی علل و اسباب کا پتہ چل گیا تھا۔ علل و اسباب کو بروئے کار لانے کے بعد اثرات کا مرتب ہونا قانون قدرت ہے اور یہی اِذن خدا ہے۔ جیسے زہر کے اثرسے ہلاکت یا تیز دھار تلوار سے مؤمن کا قتل۔ دوسرے لفظوں میں اِذن کا مطلب اِذن تکوینی ہے، نہ کہ امر تشریعی۔ چنانچہ زہر اِذن تکوینی کے تحت مہلک ہے، لیکن تشریعی امر کے تحت اس کے ذریعے بے گناہ کا قتل حرام ہے۔

اہم نکات

۱۔ یہودیوں کی موجودہ و گزشتہ سیاہ کاریوں کے مسلسل تذکرے سے ظاہر ہے کہ دشمن شناسی سالکان راہ حق کے لیے کس قدر اہم ہے۔

تحقیق مزید: آیت ۱۰۲ : الوسائل ۱۷ : ۱۴۷۔ مستدرک الوسائل ۱۳ : ۱۰۷۔ بحار الانوار ۵۶ : ۳۰۴۔


آیات 102 - 103