آیات 72 - 73
 

وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾

۷۲۔اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا،پھر ایک دوسرے پر اس کا الزام لگانے لگے، لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے اللہ اسے ظاہر کر نے والا تھا۔

فَقُلۡنَا اضۡرِبُوۡہُ بِبَعۡضِہَا ؕ کَذٰلِکَ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی ۙ وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔تو ہم نے کہا : گائے کا ایک حصہ اس (مقتول) کے جسم پر مارو، یوں اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

تشریح کلمات

ادّٰرَءۡتُمۡ

( د ر ء ) تدارء باب تفاعل ’’اپنا دفاع کرنا‘‘۔ ’’ایک دوسرے پر الزام عائد کرنا‘‘۔

تَکۡتُمُوۡنَ

( ک ت م ) کِتمان ۔ اس چیزکا چھپانا، جسے پوشیدہ رکھنا مناسب اور درست نہ ہو۔

تفسیر آیات

قبل ازیں بیان ہو چکا ہے کہ بنی اسرائیل کس باغیانہ سرشت کے مالک تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی تعمیل میں مختلف حیلے بہانوں سے کام لیا۔ اب اصل واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ گائے ذبح کرنے کا مقصد تمہارے جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک آیت (نشانی) کو ظاہرکرنا بھی ہے۔ چنانچہ حکم ہوا : ’’ ذبح شدہ گائے کا ایک حصہ مقتول کے جسم پر مارو۔ یوں اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔۔۔۔۔ ‘‘

بعض روشن خیال اور مفکر حضرات اس معجزے کی کچھ اس طرح تاویل کرتے ہیں:

اضۡرِبُوۡہُ اور بِبَعۡضِہَا دونوں کی ضمیریں مقتول کی طرف جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقتول کا ایک عضو ”مقتول ہی پرمارو“۔ بنا برین یہ ایک الگ حکم ہے، جس کا سابقہ واقعہ ”ذبح بقر“ سے کوئی تعلق نہیں۔ {پرتوی از قرآن۔ نقل از سر سید احمد خان}

یہ تفسیر ان آیات کے ظاہری اور واضح مفہوم کے سراسر خلاف ہونے کے علاوہ ایک جسارت بھی ہے، کیونکہ یہ آیات لفظ اِذ کے ساتھ ذکر ہو رہی ہیں، جو کسی مخصوص واقعے کی طرف صریح اشارہ ہے اور گائے کا ایک حصہ مقتول پر مارنے کا حکم فَقُلْنَا سے شروع ہوتا ہے جو قتل کے واقعے سے مربوط ہے۔ نیز آیت سے یہی ظاہر اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقتول اس گائے کا ایک حصہ مارنے سے زندہ ہو گیا تھا۔ چنانچہ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی نشانی تھی جو قتل کے کسی واقعے سے مربوط تھی اور قتل بھی پوشیدہ تھا۔ اس بات کی طرف آیت کے اس حصے میں اشارہ ہے: وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ۔

کچھ افراد کا یہ نظریہ ہے کہ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی سے مراد وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ {۲ بقرۃ : ۱۷۹}۔ (تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے) کی طرح نفاذ شریعت ہے جو موجب حیات و نجات ہے مگر آیت کا ظاہری مفہوم اس تاویل کی بھی نفی کرتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عقل سے کام نہ لینے کی صورت میں معجزے بھی انسان کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔

۲۔ معجزات لوگوں کو عقل سے کام لینے کی دعوت کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں: لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۔

تحقیق مزید: بحار الانوار ۱۳ : ۲۵۹


آیات 72 - 73