مستکبرین اور ناداروں سے سلوک


وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؕ مَا عَلَیۡکَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ مَا مِنۡ حِسَابِکَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَتَطۡرُدَہُمۡ فَتَکُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔اور جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ کریں، نہ آپ پر ان کا کوئی بار حساب ہے اور نہ ہی ان پر آپ کا کوئی بار حساب ہے کہ آپ انہیں (اپنے سے) دور کر دیں پس (اگر ایسا کیا تو) آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

52۔ شروع میں مفلوک الحال لوگوں نے ہی اسلام قبول کیا تھا، جس پر قریش طنز کرتے تھے کہ اس شخص کے گرد ہماری قوم کے ادنیٰ طبقے کے لوگ جمع ہیں۔ جیسا کہ قوم نوح نے بھی یہی طنز کیا تھا۔ (شعراء: 111) اسی طرح تمام انبیاء نے مادی اقدار اور انسانی اقدار کی جنگ لڑی ہے۔ قریش کے رئیس از روئے طنز کہتے تھے: کیا اللہ نے اپنے فضل و کرم کے لیے ہم میں سے صہیب، بلال اور خباب جیسوں کا انتخاب کیا ہے جن کے جسم سے بدبو آتی ہے؟ ہم اسلام قبول کر بھی لیں تو کیا ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا؟جواب میں فرمایا:یہی اصل آزمائش ہے۔ ان اقدار کے امتحان میں آج بھی بہت سے لوگ ناکام نظر آتے ہیں۔