یہودی اور انسانی اقدار؟


اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ کیا تم اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ (ان سب باتوں کے باوجود یہودی) تمہارے دین پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو اللہ کا کلام سنتا ہے، پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کر دیتا ہے۔

75۔ سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن سے بنی اسرائیل کو نوازا۔ لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے ان تمام احسانات کا شکریہ ادا کر نے کی بجائے خدا کی نافرمانی کی۔ سرکش یہودیوں کی تاریخ کے چند سیاہ باب ذکر فرمانے کے بعد اب روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے، جو دراصل مقصود کلام ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ ۔ کیا تم یہودیوں سے اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہارے دین پرایمان لے آئیں گے۔ہمارے معاصر یہودیوں کے بارے میں اس آیہ شریفہ سے یوں رہنمائی لینی چاہیے کہ کیا ان یہودیوں سے انسان دوستی، انسانی حقوق اور باہمی تعاون کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ کیا یہودی انسانی و اخلاقی اقدار پر ایمان لے آئیں گے؟ ہرگز نہیں۔