حق و باطل کی کشمکش کا سبب


قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنۡ اَسۡـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَ تَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔نوح نے کہا: میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔

قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۴۸﴾

۴۸۔ کہا گیا : اے نوحؑ! اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو آپ پر اور ان جماعتوں پر ہیں جو آپ کے ساتھ ہیں اور کچھ جماعتیں ایسی بھی ہوں گی جنہیں ہم کچھ مدت زندگی کا موقع بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔

47۔48 زمین کو طوفان کے ذریعے کفر و طغیان سے پاک کرنے کے بعد بھی دو گروہوں کے موجود ہونے کا ذکر ہے۔ ایک حضرت نوح علیہ السلام کی معیت میں ہے۔ اس ایمانی معیت اور ہمراہی میں آنے والی نسلوں کے لیے اللہ کی طرف سے سلامتی اور برکتیں ہوں گی، جب کہ دوسرے گروہ کو دنیاوی زندگی کے مال و متاع سے لطف اندوز ہونے کے بعد عذاب الٰہی سے دو چار ہونا پڑے گا۔ یہ اس لیے ہے کہ چونکہ انسان کو آزادی و خود مختاری عطا ہوئی ہے اور دنیا میں اس کے ذریعے اسے پرکھنا ہے۔ لہٰذا حق و باطل کی جنگ جاری رہے گی اور نور و ظلمت کا آمنا سامنا ہوتا رہے گا، جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ کچھ لوگ حق کا راستہ انتخاب کریں گے اور کچھ باطل کا۔