رہنما کی شرائط


قُلۡ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ ؕ قُلِ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ لِلۡحَقِّ ؕ اَفَمَنۡ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ اَحَقُّ اَنۡ یُّتَّبَعَ اَمَّنۡ لَّا یَہِدِّیۡۤ اِلَّاۤ اَنۡ یُّہۡدٰی ۚ فَمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ کہدیجئے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے؟ کہدیجئے: حق کی طرف صرف اللہ ہدایت کرتا ہے تو پھر (بتاؤ کہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟

35۔ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ لِلۡحَقِّ : حق کی طرف اللہ ہی ہدایت کرتا ہے۔ حق امر واقع کو کہتے ہیں۔ واقع کی اتباع تمام عقلاء کے نزدیک ضروری ہے۔ لہٰذا جو حق تک پہنچائے اس کی اتباع بھی ضروری ہے۔ اس آیت میں یہ سوال اٹھایا: کیا اتباع اس کی ہونی چاہیے جو بذات خود حق تک پہنچا دیتا ہے یا اس کی جو خود محتاج ہدایت ہے؟ آیت کی صراحت ہے کہ جو خود ہدایت کا محتاج ہے وہ ہدایت نہیں دے سکتا۔ ہدایت صرف وہ دے سکتا ہے جو خود محتاج ہدایت نہ ہو۔ یعنی اللہ ہی ہدایت دے سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سلسلہ ہدایت کا سرچشمہ اللہ ہی ہے۔ یہ بالکل وجود کی طرح ہے جو بذات خود وجود نہیں رکھتا، وہ دوسروں کو وجود نہیں دے سکتا۔ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہدایت خلقت کا لازمہ ہے، ہدایت کے بغیر غرض تخلیق پوری نہیں ہوتی، بلکہ ہدایت کے بغیر تخلیق عبث ہو جاتی ہے۔ لہٰذا خلقت اور ہدایت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں: قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰى ۔ (طٰہٰ:50) ہمارا رب تو وہ ہے جس نے ہر شی کو خلقت عنایت کی پھر ہدایت و رہنمائی بھی عنایت فرمائی۔ چنانچہ ہر مخلوق کو اس کی زندگی کی ضروریات اور طریقہ حیات و تولید نسل کی ہدایات اس کی فطرت میں ودیعت کر دی ہے۔