تکفیر اور تنگ نظری کی مذمت


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۹۴﴾

۹۴۔ اے ایمان والو! جب تم راہ خدا میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو، جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں، پہلے خود تم بھی تو ایسی حالت میں مبتلا تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تحقیق سے کام لو، یقینا اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

94۔ السلام علیکم کہنا شروع میں مسلمانوں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بعض جنگوں میں جب کوئی مسلمان لپیٹ میں آ جاتا تو وہ یہ بتانے کے لیے کہ میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں سلام کرتا اور کلمہ پڑھ دیتا، مگر مسلمان اسے قتل کر دیتے اس گمان سے کہ اس نے صرف جان بچانے کے لیے ایسا کیا ہے۔اس آیت سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ کلمہ گو اور اہلِ قبلہ تو بجائے خود، اسلامی آداب و شعائر کا اظہار کرنے والے پر بھی اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں اور اس کا جان و مال محفوظ ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: لانکفراھل القبلۃ بذنب ۔ صاحب تفسیر المنار نیم خواندہ، تنگ نظر لوگوں کے بارے میں درست لکھتے ہیں: کہاں یہ بات اور کہاں ان لوگوں کا کردار جو نہ اپنے اسلام میں نہ اپنے اعمال میں کتاب اللہ سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور اپنی خواہشات سے ذرا اختلاف رکھنے والے اہلِ قبلہ کو کافر قرار دینے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔