مراعات یافتہ طبقے کا طرزفکر


وَ لَئِنۡ اَطَعۡتُمۡ بَشَرًا مِّثۡلَکُمۡ اِنَّکُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اور اگر تم نے اپنے جیسے کسی بشر کی اطاعت کی تو بے شک تم خسارے میں رہو گے۔

34۔ مراعات یافتہ لوگ ہمیشہ تمام مراعات کو اپنا فطری حق تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا ان مراعات کے منافی ہر فکر کو رد کرنے میں یہ لوگ پیش پیش ہوتے تھے۔ دوسری بات وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انسان الہٰی رسالت کا اہل نہیں ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جو شخص اس رسالت کا مدعی ہے وہ کوئی نرالی مخلوق تو ہے نہیں کہ ہمارے اور اللہ کے درمیان واسطہ بن جائے۔ اس کے پاس وہی وسائل ہیں جو ہمارے پاس ہیں۔ اس کے پاس کان ہیں تو ہمارے پاس بھی کان ہیں۔ وہ وحی کو سن لیتا ہے، ہم کیوں نہیں سنتے۔ حتیٰ کہ اس کی ضروریات زندگی بھی ہماری طرح ہیں، جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں یہ رسول بھی کھاتا پیتا ہے۔

قرآن نے متعدد مقامات پر اس کا جواب دیا ہے۔ سورہ انعام آیت 9 میں فرمایا: وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلۡنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّا یَلۡبِسُوۡنَ﴿﴾ ۔ اگر ہم اس رسول کو فرشتہ قرار دیتے تو مردانہ شکل میں قرار دیتے اور ہم انہیں اسی شبہ میں مبتلا کرتے جس میں وہ اب ہیں۔ کیونکہ اس فرشتہ رسول کو بھی نمونہ عمل بننا پڑتا کہ لوگ اس کی اطاعت کریں۔ اس طرح ساری بشری خصوصیات اس فرشتے میں موجود ہوتیں تو اس صورت میں تم نے پھر یہی کہنا تھا: یہ تو ہم جیسا بشر ہے۔