بدامنی،عذاب الٰہی ہے


قُلۡ ہُوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَ عَلَیۡکُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِکُمۡ اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ کہدیجئے:اللہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے یا تمہیں فرقوں میں الجھا کر ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم اپنی آیات کو کس طرح مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔

65۔اوپر سے آنے والے اور قدموں کے نیچے سے آنے والے عذاب کے بارے میں مفسرین نے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے:

الف: اوپر سے آنے والا عذاب طوفان اور سنگباری ہے جبکہ نیچے سے پھوٹنے والا عذاب زمین میں دھنس جانا ہے، جیسے قارون کے لیے ہوا۔

ب: اوپر سے آنے والا عذاب حکمرانوں کی طرف سے آنے والا عذاب ہے، جب کہ نیچے سے آنے والا عذاب نوکروں کی طرف سے آنے والا عذاب ہے۔

ج: ہمارے بعض معاصر مفسر جنگوں میں اوپر سے آنے والی بمباری اور نیچے سے پھٹنے والی مائنز بھی مراد لیتے ہیں۔

ان تمام اقوال سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ”اوپر نیچے“ ایک تعبیر ہے۔ اصل مراد یہ ہے کہ اللہ تمہیں ہر طرف سے آنے والے عذاب سے گھیر سکتا ہے، ساتھ اس میں اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ ایسے عذاب کے تم مستحق بھی ہو۔ عذاب الٰہی کی ایک صورت تو آسمانی آفات اور زمینی حوادث ہیں۔ دوسری صورت آپس کی بدامنی اور خانہ جنگی ہے جس میں امت مختلف گروہوں میں بٹ جاتی ہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر چڑھ آتا ہے نیز امت داخلی بدامنی اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہے۔