دلیل کا جواب دہشت گردی


ثُمَّ نُکِسُوۡا عَلٰی رُءُوۡسِہِمۡ ۚ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنۡطِقُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم سے کہا) : تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے ۔

65۔ ضمیر کی اس آواز کے برعکس ان لوگوں نے الٹا سوچنا شروع کیا اور ابراہیم علیہ السلام کو ملزم قرار دیتے ہوئے کہنے لگے: ابراہیم تجھے خود علم ہے یہ نہیں بول سکتے، لہذا تم نے ہی توڑا ہے۔

فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا اقۡتُلُوۡہُ اَوۡ حَرِّقُوۡہُ فَاَنۡجٰىہُ اللّٰہُ مِنَ النَّارِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ تو اس (ابراہیم) کی قوم کا صرف یہ جواب تھا کہ وہ کہیں: انہیں قتل کر ڈالو یا جلا دو لیکن اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا، ایمان والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

24۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت الی الحق کے مقابلے میں اس طاغوت کے پاس منطقی جواب نہیں تھا۔ بنا بریں طاقت کی زبان استعمال کرتے ہوئے ان کو قتل کرنے یا آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اس سے بچنے کے مادی وسائل نہ تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور آگ کو گلزار میں تبدیل کر دیا۔ یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ جہاں اس کے بندے مادی وسائل نہ رکھتے ہوں اور دشمن پور ی طاقت کے ساتھ مقابلے میں آ جائے تو اللہ کی مدد معجزے کے طور پر آ جاتی ہے اور اگر بندوں کے پاس مادی وسائل اور طاقت موجود ہو اور وہ دشمن کا مقابلہ نہ کر سکیں تو اللہ کی مدد نہیں آتی۔ دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نمرود والے اس عظیم معجزے کے مشاہدے کے بعد بھی ایمان نہیں لائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کل کے مادہ پرست بھی محسوس معجزوں کے باوجود ایمان نہیں لائے۔