قصاص کی حقیقت


وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔ اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، امید ہے تم (اس قانون کے سبب) بچتے رہو گے۔

179۔ جو لوگ قصاص کو جانوں کے تلف کرنے کا اعادہ اور جذبۂ انتقام کا فروغ تصور کرتے ہیں، ان کی نظر میں قصاص صرف قاتل اور مقتول تک محدود ہے جبکہ قصاص کا تعلق پوری انسانیت سے ہے اور اس قانون سے قتل میں کمی واقع ہو جاتی ہے، خواہ قصاص عملاً معاف ہو جائے یا دیت لے لی جائے نیز قصاص اندھا انتقام نہیں بلکہ یہ ایک مہذب قانون ہے۔ چنانچہ مقتول کے وارثین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود قاتل سے انتقام لیں۔ ورثاء عدالت کی طرف رجوع کریں گے اور اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ قانونِ قصاص پر عمل کرائے خواہ مقتول کا کوئی وارث ہو یا نہ ہو۔ چشم جہاں نے دیکھ لیا کہ جس دن سے زندان نے قصاص کی جگہ لی ہے، دنیا میں قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے نیز دفاع میں جب قتل سے پہلے قتل جائز ہے، قصاص میں قتل کے بعد قتل کیسے جائز نہ ہو گا۔

قصاص پر اعتراض کرنے والی ایک مہذب قوم نے اپنے ایک فرد کا بدلہ دوسری پوری قوم سے لیا۔ وہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تیسری دنیا میں نسل کشی سے باز نہیں آتے،پھر قصاص کو غیر انسانی عمل کہتے ہیں!