فلسفہ نسخ احکام


مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کراتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت نازل کرتے ہیں، کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ؟

106۔ آسمانی شریعتوں میں احکام کی منسوخی ایک مسلمہ امر ہے۔ اسلامی شریعت کے احکام میں بھی نسخ واقع ہوا ہے۔ کیونکہ یہ شریعت انسانی تربیت و ارتقاء کے لیے ہے اور تربیت کا مطلب ہی تدریجی ارتقاء ہے۔ اس لیے احکام میں رد و بدل ایک طبعی امر ہے۔

نسخ احکام پر یہودیوں کے اعتراض کے جواب میں فرمایا: میں جس حکم کو منسوخ کرتا ہوں اس کی جگہ اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسا حکم لاتا ہوں۔ حالانکہ خود یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کی شریعت سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہے۔ خود توریت میں بہت سے احکام منسوخ ہوئے ہیں۔ مثلاً سفر تکوین باب 22 میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے اپنے فرزند کے ذبح کا حکم منسوخ ہو گیا۔ واضح رہے کہ جو اعتراض یہود نسخ احکام پر کرتے ہیں وہی اعتراض بداء پر کیا جاتا ہے۔ جب کہ نسخ اور بداء ایک چیز ہے۔ فرق یہ ہے کہ نسخ احکام میں اور بداء تکوین میں ہوتا ہے۔