گمراہ رہنما اور ان کے پیروکاروں کا انجام


یَقۡدُمُ قَوۡمَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَاَوۡرَدَہُمُ النَّارَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡوِرۡدُ الۡمَوۡرُوۡدُ﴿۹۸﴾

۹۸۔ قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے ہو گا اور انہیں جہنم تک پہنچا دے گا، کتنی بری جگہ ہے جہاں یہ وارد کیے جائیں گے۔

وَ اُتۡبِعُوۡا فِیۡ ہٰذِہٖ لَعۡنَۃً وَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ بِئۡسَ الرِّفۡدُ الۡمَرۡفُوۡدُ﴿۹۹﴾

۹۹۔ اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کے تعاقب میں ہے اور قیامت کے دن بھی، کتنا برا صلہ ہے یہ جو (کسی کے) حصے میں آئے۔

98۔ 99 اس آیت اور دیگر آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں لوگوں کو گمراہ کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں وہی قیامت کے دن انہیں جہنم کی طرف لے جانے میں آگے آگے ہوں گے۔

اورد یعنی ان کو پانی کے گھاٹ پر اتارا۔ جیسے کہ چرواہا جانوروں کو پانی کے گھاٹ کی طرف لے جاتا ہے، یہ کافر بھی جانوروں کی طرح بلا سوچے سمجھے ان گمراہوں کے پیچھے چلتے رہے۔ کل قیامت کے روز جب ان کے پیرو ان کے پیچھے جہنم کی طرف جا رہے ہوں گے تو ان پر لعنتوں کی بوچھاڑ کرتے جا رہے ہوں گے۔ لعنتوں کا یہ صلہ کتنا برا صلہ ہو گا۔

اس آیہ شریفہ میں عذاب جہنم کو پانی کے گھاٹ اور عذاب کو عطیے اور صلے کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ انسان کو اپنی تشنگی رفع کرنے کے لیے پانی اور ثواب و صلہ کی طرف جانا چاہیے تھا، لیکن فرعون جیسے رہنما ان کو پانی کی بجائے جہنم اور صلہ و عطیہ کی جگہ عذاب کی طرف لے جاتے ہیں۔