اہل بیت اور قیاس و فرقہ بندی


اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہُمۡ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۱۵۹﴾

۱۵۹۔جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے بیشک آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا معاملہ یقینا اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔

159۔ مشرکین کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے آبائی دین میں تفرقہ ڈالا ہے۔ ارشاد فرمایا: اے محمد ﷺ! آپ ﷺ کا تفرقہ بازوں سے کوئی تعلق نہیں۔

علامہ عبد البر نے عوف بن مالک اشجعی کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تفترق امتی علی بضع و سبعین فرقۃ اعظمھا فتنۃ علی امتی قوم یقیسون الامور برأیہم فیحلون الحرام و یحرّمون الحلال ۔ (تہذیب الکمال 18 : 396۔ المنار 8: 219) میری امت ستر سے زائد فرقوں میں بٹ جائے گی۔ زیادہ فتنہ انگیز وہ فرقہ ہے جو دینی معاملات میں اپنی ذاتی رائے سے قیاس کرے گا، اس طرح وہ اللہ کے حلال کو حرام اور اللہ کے حرام کو حلال کر دیں گے۔

واضح رہے کہ ائمہ اہل بیت علیہ السلام بالاجماع قیاس کے مخالف ہیں اور قیاس پر عمل نہ کرنا فقہ جعفری کی امتیازی علامت ہے۔کتاب المجروحین 3: 65 میں ابن حبان نے اور خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں یوسف بن اسباط سے نقل کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ فرماتے تھے: لو ادرکنی رسول اللّہ و ادرکتہ لاخذ بکثیر من قولی ۔ اگر رسول اللہ ﷺ میرے زمانے میں ہوتے اور میں ان کے زمانے میں ہوتا تو حضور ﷺ میرے بیشتر اقوال کو اخذ کر لیتے۔

ممکن ہے کہ امام ابوحنیفہ کا یہ خیال حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی دو سالہ شاگردی سے پہلے کا ہو، بعد میں اگرچہ وہ رسول ﷺ کو نہیں پا سکے، لیکن فرزند رسول ﷺ کو پاکر کہتے تھے: لو لا السنتان لھلک النعمان ۔ اگر دو سالہ شاگردی نہ ہوتی تو نعمان ہلاک ہو چکا ہوتا۔