اسلامی تقویم


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ وَ لَیۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ ظُہُوۡرِہَا وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰیۚ وَ اۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ اَبۡوَابِہَا ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۸۹﴾

۱۸۹۔لوگ آپ سے چاند کے(گھٹنے بڑھنے کے) بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: یہ لوگوں کے لیے اور حج کے اوقات کے تعین کا ذریعہ ہے اور (ساتھ یہ بھی کہدیجئے کہ حج کے احرام باندھو تو) پشت خانہ سے داخل ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور تم (اپنے) گھروں میں دروازوں سے ہی داخل ہوا کرو اور اللہ (کی ناراضگی) سے بچے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

189۔ چاند آسمان پر آویزاں ایک تقویم ہے جو آسانی سے ہر خواندہ اور ناخواندہ شخص دیکھ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے قمری تقویم قدیم زمانوں سے قابل عمل چلی آ رہی ہے۔ چنانچہ مصری، سومری، یونانی اور دوسری قومیں قمری تقویم پر عمل پیرا تھیں۔ شمسی جنتری ہر شخص کے لیے قابل فہم نہیں ہے۔ چنانچہ یہ تقویم بہت سے مفکرین کی مسلسل کوششوں سے موجودہ شکل میں آ گئی ہے۔

عربوں کی تو ہم پرستانہ رسوم میں سے ایک یہ تھی کہ حج کے لیے احرام باندھنے کے بعد وہ اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہیں ہوتے تھے،بلکہ پیچھے سے دیوار پھلانگ کر یا گھر کی عقبی کھڑکی سے داخل ہوتے تھے۔ ان اوہام کو ختم کرتے ہوئے قرآن کریم نے نیکی کا حقیقی معیار بیان فرمایا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو۔