محبت کا معیار


اِذۡ عُرِضَ عَلَیۡہِ بِالۡعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الۡجِیَادُ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ جب شام کے وقت انہیں عمدہ تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے،

رُدُّوۡہَا عَلَیَّ ؕ فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَ الۡاَعۡنَاقِ﴿۳۳﴾

۳۳۔ (بولے) انہیں میرے پاس واپس لے آؤ، پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔

31 تا 33۔ سیاق آیت کے قریب تر معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بندگانِ خدا میں ممتاز مقام حاصل تھا، کیونکہ وہ اللہ کی طرف خوب رجوع کرنے والے تھے۔ چنانچہ جب سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے جو راہ خدا میں جہاد کے لیے آمادہ کیے گئے تھے تو ذکر خدا سے غافل ہو گئے۔ روایات کے مطابق اول وقت نکل گیا۔ یہاں تک کہ جب گھوڑوں کی دوڑ کرائی اور وہ نگاہ سے دور ہو گئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ گھوڑے ان کے پاس واپس لائے جائیں۔ پھر از روئے محبت ان گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ یعنی انبیاء دنیا کی عمدہ چیزوں سے اگر محبت کرتے ہیں تو محض برائے خدا محبت کرتے ہیں۔ عمدہ گھوڑوں پر بھی رضائے الٰہی کی خواہش کے بغیر فریفتہ نہیں ہوتے۔

ممکن ہے توارت الصافنات بالحجاب مراد ہو، چنانچہ رُدُّوۡہَا عَلَیَّ اس پر قرینہ ہے۔ اکثر مفسرین توارت الشمس مراد لیتے ہیں، جبکہ شمس پہلے مذکور نہیں ہے۔ صرف العشی کو قرینہ قرار دیتے ہیں جو ضعیف قرینہ ہے۔