وَ اَصۡحٰبُ الشِّمَالِ ۬ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الشِّمَالِ ﴿ؕ۴۱﴾

۴۱۔ رہے بائیں والے تو بائیں والوں کا کیا پوچھنا۔

فِیۡ سَمُوۡمٍ وَّ حَمِیۡمٍ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ وہ جلتی ہوا اور کھولتے پانی میں،

وَّ ظِلٍّ مِّنۡ یَّحۡمُوۡمٍ ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے،

لَّا بَارِدٍ وَّ لَا کَرِیۡمٍ﴿۴۴﴾

۴۴۔ جس میں نہ خنکی ہے اور نہ راحت۔

44۔ عام طور پر سائے سے خنکی اور آرام ملتا ہے لیکن اس دوزخی سائے میں نہ خنکی ہو گی نہ راحت۔

وَّ لَا کَرِیۡمٍ : اہل لغت کہتے ہیں : الکریم صفۃ لکل ما یرضی و یحمد ۔ ہر پسندیدہ قابل ستائش چیز کو کریم کہتے ہیں۔ (لسان العرب)

اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِکَ مُتۡرَفِیۡنَ ﴿ۚۖ۴۵﴾

۴۵۔ یہ لوگ اس سے پہلے ناز پروردہ تھے،

45۔ دولت و نعمت کی فراوانی نے ان کو بدمست کر دیا تھا اور خواہشات کی پیروی نے یاد خدا ان کے دل سے نکال دی تھی۔ وہ شکر نعمت کی جگہ ناز و نعمت کو اپنی مہارت کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔

وَ کَانُوۡا یُصِرُّوۡنَ عَلَی الۡحِنۡثِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۴۶﴾

۴۶۔ اور گناہ عظیم پر اصرار کرتے تھے،

46۔ ایک تو گناہ عظیم اور دوسرا اس پر تکرار کے باعث جرم مزید سخت ہو گا۔ واضح رہے کہ تکرار کی وجہ سے چھوٹا گناہ بھی عظیم ہو جاتا ہے۔ دولت کے نشے میں مدہوش اور گناہان کبیرہ کے ارتکاب مکرر سے اپنے جرم میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

وَ کَانُوۡا یَقُوۡلُوۡنَ ۬ۙ اَئِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ ﴿ۙ۴۷﴾

۴۷۔ اور کہا کرتے تھے: کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟

اَوَ اٰبَآؤُنَا الۡاَوَّلُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟

قُلۡ اِنَّ الۡاَوَّلِیۡنَ وَ الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ۙ۴۹﴾

۴۹۔ کہدیجئے: اگلے اور پچھلے یقینا،

لَمَجۡمُوۡعُوۡنَ ۬ۙ اِلٰی مِیۡقَاتِ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ﴿۵۰﴾

۵۰۔ ایک مقررہ دن مقررہ وقت پر جمع کیے جائیں گے۔