وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَیُّوۡبَ ۘ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الشَّیۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّ عَذَابٍ ﴿ؕ۴۱﴾

۴۱۔ اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجیے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: شیطان نے مجھے تکلیف اور اذیت دی ہے۔

41۔ شیاطین کی طرف سے عذاب اور تکلیف یہ تھی کہ شیطان کی یہ کوشش تھی کہ حضرت ایوب علیہ السلام سات سالہ بیماری کے نتیجے میں اللہ سے بدظن ہو جائیں۔ شیطان طرح طرح کے وسوسے ذہن میں ڈالتا تھا۔ اللہ کا برگزیدہ بندہ ہونے کی وجہ سے انہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہے۔

اُرۡکُضۡ بِرِجۡلِکَ ۚ ہٰذَا مُغۡتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ﴿۴۲﴾

۴۲۔ (ہم نے کہا ) اپنا پاؤں ماریں، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کے لیے۔

42۔ جب حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش ختم ہوئی تو پاؤں زمین پر مارنے کا حکم ہوا۔ چنانچہ پاؤں زمین پر مارتے ہی چشمہ پھوٹا جس سے پانی پی کر اور نہا کر شفایابی ہوئی۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنَّا وَ ذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ﴿۴۳﴾

۴۳۔ ہم نے انہیں اہل و عیال دیے اور ان کے ساتھ اتنے مزید دیے اپنی طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لیے نصیحت کے طور پر۔

43۔ جنہوں نے انہیں چھوڑ دیا تھا وہ سب پلٹ آئے اور مزید اولاد عنایت ہوئی۔

وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبۡ بِّہٖ وَ لَا تَحۡنَثۡ ؕ اِنَّا وَجَدۡنٰہُ صَابِرًا ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ﴿۴۴﴾

۴۴۔ (ہم نے کہا) اپنے ہاتھ میں ایک گچھا تھام لیں اور اسی سے ماریں اور قسم نہ توڑیں، ہم نے انہیں صابر پایا، وہ بہترین بندے تھے، بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔

44۔ روایت کے مطابق حضرت ایوب علیہ السلام اپنی زوجہ کے کسی عمل پر برہم ہوئے اور قسم کھائی کہ اسے سو کوڑے ماریں گے۔ بعد میں جب وہ بے گناہ ثابت ہوئی تو پریشان ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ سو تنکوں والا ایک گچھا اسے مارو کہ تمہاری قسم بھی پوری ہو جائے اور اسے تکلیف بھی نہ ہو۔ یہ حکم حدود و تعزیرات کے لیے نظیر و نمونہ نہیں بنتا، بلکہ متعلقہ شخص کے بے گناہ ہونے کی صورت میں قانون کے ظاہری تحفظ کی صورت سے مختص ہے۔

وَ اذۡکُرۡ عِبٰدَنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ اُولِی الۡاَیۡدِیۡ وَ الۡاَبۡصَارِ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کیجیے جو طاقت اور بصیرت والے تھے۔

45۔ اُولِی الۡاَیۡدِیۡ : طاقت والے۔ روایات کے مطابق اللہ کی عبادت بجا لانے میں طاقت اور قوت والے تھے۔ وَ الۡاَبۡصَارِ بصیرت کی وجہ سے ان کو نبوت اور امامت کی منزل پر فائز کیا۔

اِنَّاۤ اَخۡلَصۡنٰہُمۡ بِخَالِصَۃٍ ذِکۡرَی الدَّارِ ﴿ۚ۴۶﴾

۴۶۔ ہم نے انہیں ایک خاص صفت کی بنا پر مخلص بنایا (وہ) دار (آخرت) کا ذکر ہے۔

46۔ جس خصوصی امتیاز کی وجہ سے ہم نے ان کو برگزیدہ کیا وہ امتیاز یہ تھا کہ ان کے دل میں آخرت کی یاد تازہ رہتی تھی۔

وَ اِنَّہُمۡ عِنۡدَنَا لَمِنَ الۡمُصۡطَفَیۡنَ الۡاَخۡیَارِ ﴿ؕ۴۷﴾

۴۷۔ اور وہ ہمارے نزدیک یقینا برگزیدہ نیک افراد میں سے تھے۔

وَ اذۡکُرۡ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ الۡیَسَعَ وَ ذَاالۡکِفۡلِ ؕ وَ کُلٌّ مِّنَ الۡاَخۡیَارِ ﴿ؕ۴۸﴾

۴۸۔ اور (اے رسول) اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو یاد کیجیے، یہ سب نیک لوگوں میں سے ہیں۔

48۔ حضرت الیسع جنہیں عیسائی کتب میں الیشع کہا گیا ہے، حضرت الیاس علیہ السلام کے جانشین تھے اور دریائے اردن کے کنارے کسی مقام کے رہنے والے تھے۔ آپ نے بنی اسرائیل میں بت پرستی کے خلاف جہاد کیا۔

ہٰذَا ذِکۡرٌ ؕ وَ اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ لَحُسۡنَ مَاٰبٍ ﴿ۙ۴۹﴾

۴۹۔ یہ ایک نصیحت ہے اور تقویٰ والوں کے لیے یقینا اچھا ٹھکانا ہے۔

جَنّٰتِ عَدۡنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الۡاَبۡوَابُ ﴿ۚ۵۰﴾

۵۰۔ وہ دائمی جنتیں ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔

50۔ ان کے دائمی جنت میں داخل ہونے کے لیے انتظار یا کسی کی اجازت کی ضرورت نہ ہو گی۔ ان کے لیے جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے۔