قَالَ فَمَا بَالُ الۡقُرُوۡنِ الۡاُوۡلٰی﴿۵۱﴾

۵۱۔ فرعون بولا:پھر گزشتہ نسلوں کا کیا بنا ؟

قَالَ عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ فِیۡ کِتٰبٍ ۚ لَا یَضِلُّ رَبِّیۡ وَ لَا یَنۡسَی ﴿۫۵۲﴾

۵۲۔ موسیٰ نے کہا: ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔

51۔ 52 فرعون نے کہا: اگر رب کی یہی تعریف ہے جو تم بیان کر رہے ہو تو ہمارے آبا و اجداد کے بارے میں کیا کہتے ہو، کیا وہ سب گمراہ تھے؟ ان کے پاس کوئی عقل و فہم نہیں تھی کہ انہوں نے نسلاً بعد نسلٍ رب کے بارے میں وہی تصور اختیار کیے رکھا جو آج ہم رکھتے ہیں۔ اگر وہ گمراہ تھے تو تم بتا سکتے ہو کہ وہ کس حال میں ہیں؟

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ان کے اعمال کا پورا حساب میرے پروردگار کے ہاں محفوظ ہے۔ جہاں بھول چوک کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ مَہۡدًا وَّ سَلَکَ لَکُمۡ فِیۡہَا سُبُلًا وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ؕ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡ نَّبَاتٍ شَتّٰی﴿۵۳﴾

۵۳۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس سے ہم نے مختلف نباتات کے جوڑے اگائے۔

کُلُوۡا وَ ارۡعَوۡا اَنۡعَامَکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰی﴿٪۵۴﴾

۵۴۔ تم بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ، صاحبان علم کے لیے اس میں یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔

مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی﴿۵۵﴾

۵۵۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔

وَ لَقَدۡ اَرَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا کُلَّہَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور بتحقیق ہم نے فرعون کو ساری نشانیاں دکھا دیں سو اس نے پھر بھی تکذیب کی اور انکار کیا۔

قَالَ اَجِئۡتَنَا لِتُخۡرِجَنَا مِنۡ اَرۡضِنَا بِسِحۡرِکَ یٰمُوۡسٰی﴿۵۷﴾

۵۷۔ فرعون نے کہا: اے موسیٰ! کیا تم اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری سرزمین سے نکالنے ہمارے پاس آئے ہو؟

57۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت سے فرعون کی سلطنت کو خطرہ اس لیے لاحق ہو گیا تھا کہ فرعون اپنے آپ کو سورج دیوتا کا مظہر اور نمائندہ سمجھتا تھا جسے اس کے زعم میں حکومت کرنے کا حق حاصل تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ اعلان فرمایا: میں اللہ کا نمائندہ ہوں تو فرعون کی حکومت غیر قانونی ہو جاتی تھی۔ اس لیے اس نے کہا: یہ اپنے جادو سے ہمیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتا ہے۔ جبکہ جادو سے کوئی کسی ملک کو فتح نہیں کر سکتا۔

فَلَنَاۡتِیَنَّکَ بِسِحۡرٍ مِّثۡلِہٖ فَاجۡعَلۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکَ مَوۡعِدًا لَّا نُخۡلِفُہٗ نَحۡنُ وَ لَاۤ اَنۡتَ مَکَانًا سُوًی﴿۵۸﴾

۵۸۔ پس ہم بھی تمہارے مقابلے میں ایسا ہی جادو پیش کریں گے، لہٰذا ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت جس کی نہ ہم خلاف ورزی کریں اور نہ تم، صاف میدان مقرر کر لو۔

قَالَ مَوۡعِدُکُمۡ یَوۡمُ الزِّیۡنَۃِ وَ اَنۡ یُّحۡشَرَ النَّاسُ ضُحًی﴿۵۹﴾

۵۹۔ موسیٰ نے کہا: تمہارے ساتھ جشن کے دن وعدہ ہے اور یہ کہ دن چڑھے لوگ جمع کیے جائیں۔

59۔ یَوۡمُ الزِّیۡنَۃِ : وقت اور دن کی پیشکش حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ہو رہی ہے۔ قومی تہوار کا دن جس میں پوری قوم اپنی زیب و زینت کے ساتھ جمع ہوتی ہے اور جشن کے دن کا وقت بھی تعین کر دیا کہ ضُحًی کا ہو، یعنی جب دن چڑھ جائے۔

فَتَوَلّٰی فِرۡعَوۡنُ فَجَمَعَ کَیۡدَہٗ ثُمَّ اَتٰی﴿۶۰﴾

۶۰۔ پس فرعون نے پلٹ کر اپنی ساری مکاریوں کو یکجا کیا پھر (مقابلے میں) آ گیا۔

60۔ پورے ملک سے جادوگروں کو میلے کے دن جمع کیا اور عوام کو بھی جمع کیا تاکہ جادوگروں کے عظیم کرتب سے عصائے موسیٰ علیہ السلام کا رعب ختم ہو جائے۔