وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِئَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿٪۴۱﴾

۴۱۔ اور بتحقیق آپ سے پہلے بھی رسولوں کا استہزا ہوتا رہا ہے مگر ان استہزا کرنے والوں کو اسی عذاب نے آ گھیرا جس کا وہ استہزا کیا کرتے تھے۔

41۔ استہزاء اور تمسخر ایک غیر انسانی جرم ہے اور احترام آدمیت کے منافی ہے۔ اس میں دوسرے کی تحقیر اور اپنے تکبر کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو ایک ایسا دن دیکھنا ہو گا جس میں خود ان کے ساتھ یہی تمسخرانہ اور تحقیر آمیز سلوک کیا جائے گا۔

قُلۡ مَنۡ یَّکۡلَؤُکُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ مِنَ الرَّحۡمٰنِ ؕ بَلۡ ہُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّہِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ کہدیجئے: رات اور دن میں رحمن سے تمہیں کون بچائے گا؟ بلکہ یہ لوگ تو اپنے رب کے ذکر سے منہ موڑے ہوئے ہیں

42۔ الکلاء ۃ کے معنی حفظ کے ہیں: اگر اللہ ان کو عذاب دینا چاہے تو اللہ کے عذاب سے ان کو کون بچائے گا؟ جس اللہ سے انہیں پناہ ملنی تھی، اس سے تو یہ منہ موڑے ہوئے ہیں اور ساری توقعات ان بتوں سے وابستہ کیے ہوئے ہیں جو خود اپنی ذات کو بھی نہیں بچا سکتے۔

اَمۡ لَہُمۡ اٰلِہَۃٌ تَمۡنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ نَصۡرَ اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَا ہُمۡ مِّنَّا یُصۡحَبُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ کیا ہمارے علاوہ بھی ان کے معبود ہیں جو انہیں بچا لیں؟ وہ تو خود اپنی مدد کی بھی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہماری طرف سے ان کا ساتھ دیا جائے گا ۔

بَلۡ مَتَّعۡنَا ہٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَہُمۡ حَتّٰی طَالَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ ؕ اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ اَفَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ بلکہ ہم تو انہیں اور ان کے آبا کو سامان زیست دیتے رہے یہاں تک کہ ان پر عرصہ دراز گزر گیا تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم عرصہ زمین ہر طرف سے تنگ کر رہے ہیں؟ تو کیا (پھر بھی) یہ لوگ غالب آنے والے ہیں۔

44۔ ان مشرکوں کو ہم نے زندگی گزارنے کی ایک مدت تک ڈھیل دے رکھی تھی۔ یہ اس لیے نہیں تھا کہ ان کو ہم سے کوئی بچانے والا تھا،بلکہ ہم نے خود ان کو اور ان کے آبا و اجداد کو لمبی مدت تک ڈھیل دے رکھی ہے۔اب ان کی مدت مہلت ختم ہو رہی ہے۔ کیا ان کو نظر نہیں آتا کہ ان پر زمین تنگ ہو رہی ہے اور ہر طرف سے ان پر دائرہ تنگ ہو رہا ہے؟ تو کیا ایسے آثار نظر آتے ہیں کہ یہ لوگ غالب آ جائیں؟ نہیں بلکہ ان کے مغلوب ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ اس آیت کی جو تفسیر دیگر مفسرین نے کی ہے وہ اس سورہ کے مکی ہونے کے اعتبار سے مربوط نہیں ہے۔

قُلۡ اِنَّمَاۤ اُنۡذِرُکُمۡ بِالۡوَحۡیِ ۫ۖ وَ لَا یَسۡمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنۡذَرُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ کہدیجئے : میں وحی کی بنا پر تمہیں تنبیہ کر رہا ہوں مگر جب بہروں کو تنبیہ کی جائے تو (کسی) پکار کو نہیں سنتے ۔

45۔ وحی اگر کسی پر اثر پذیر نہیں ہے تو اس لیے نہیں کہ پیغام وحی میں مضمون نہیں ہے بلکہ سننے والوں میں اہلیت نہیں ہے کہ اس پیغام سے اثر لیں۔

وَ لَئِنۡ مَّسَّتۡہُمۡ نَفۡحَۃٌ مِّنۡ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ یٰوَیۡلَنَاۤ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور اگر انہیں آپ کے رب کا تھوڑا سا عذاب بھی چھو جائے تو وہ ضرور کہنے لگ جائیں گے: ہائے ہماری تباہی! ہم یقینا ظالم تھے۔

وَ نَضَعُ الۡمَوَازِیۡنَ الۡقِسۡطَ لِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ اَتَیۡنَا بِہَا ؕ وَ کَفٰی بِنَا حٰسِبِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوا تو ہم اسے اس کے لیے حاضر کر دیں گے اور حساب کرنے کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔

47۔ روز قیامت جو ترازو نصب ہو گا اس کی حقیقت ہمارے لیے قابل درک نہیں ہے۔ وہ دنیوی ترازو کی مانند یقینا نہیں ہے بلکہ کوئی ایسی میزان ہے جس سے خود انسان کو اپنے عمل کا وزن یعنی اس کی قیمت معلوم ہو جائے گی۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ الۡفُرۡقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِکۡرًا لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۴۸﴾

۴۸۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور ایک روشنی اور ان متقین کے لیے نصیحت عطا کی ۔

الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ وَ ہُمۡ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشۡفِقُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے رہے اور قیامت سے بھی خوف کھاتے ہیں۔

وَ ہٰذَا ذِکۡرٌ مُّبٰرَکٌ اَنۡزَلۡنٰہُ ؕ اَفَاَنۡتُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ﴿٪۵۰﴾ ۞ٙ

۵۰۔ اور یہ( قرآن) ایک مبارک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، کیا تم اس کے بھی منکر ہو؟

50۔ یہ قرآن پوری انسانیت کے لیے بابرکت ہے اس قرآن نے انسانیت کو تہذیب سکھائی، تمدن دیا، دنیا کو زندگی کا سلیقہ سکھایا، دستور حیات دیا، جس سے کافر بھی مستفید ہوئے۔