آیت 8
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۸﴾

۸۔ اے ایمان والو! اللہ کے آگے توبہ کرو خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس دن اللہ نہ اپنے نبی کو رسوا کرے گا اور نہ ہی ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا اور وہ دعا کر رہے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے پورا کر دے اور ہم سے درگزر فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا: النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو اور خلوص کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ خالص شہد کو ناصح العسل کہتے ہیں۔ اس صورت میں توبہ کو نصوح کہنے کا مطلب یہ ہو جاتا ہے کہ ایسی توبہ کرو جو نہایت خالص ہو چونکہ نصوح صیغہ مبالغہ ہے جیسے ضروب صیغہ مبالغہ ہے۔ نہایت خالص توبہ کا مطلب یہ ہے کہ دوبارہ اس گناہ کا نہ سوچے جس سے توبہ کی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

توبہ و استغفار کے چھ ستون ہیں۔ i۔ گزشتہ گناہوں پر ندامت۔ ii۔ عدم اعادہ کا عزم۔ iii۔ وہ تمام فرائض انجام دے جو چھوٹ گئے ہیں۔ iv۔ لوگوں کا حق ذمے نہ ہو۔ v۔ گناہ کے ذریعے جو گوشت بنا ہے وہ غم و اندوہ سے بدل کر تازہ گوشت بن جائے۔ vi۔ اپنے کو اطاعت کی تلخی چکھا دے جیسا کہ گناہ کی لذت چکھ لی ہے۔ ( مستدرک الوسائل ۱۲: ۱۳۰۔ قریب منہ فی الکشاف ۴: ۵۶۹)

۲۔ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ: چونکہ توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں:

التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ۔ ( الکافی ۲: ۴۳۵)

گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔

لہٰذا توبہ، گناہوں کا مؤثر ترین کفارہ ہے۔ واضح رہے: ’’ عَسٰی ‘‘ و ’’ لعل ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ جس بات کا ذکر فرماتا ہے وہ ایک پسندیدہ بات ہوتی ہے جسے اللہ ضرور انجام دیتا ہے۔ یہ تقریباً وعدے کی مانند ہے۔

۳۔ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ: ظاہر ہے جب گناہ دھل جائیں گے، جو جنت میں داخل ہونے کے لیے رکاوٹ تھے وہ دور ہونے کی صورت میں جنت میں داخل ہونا ممکن ہو جائے گا۔

۴۔ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ: قیامت کے دن اللہ کے اپنے رسول اور ان کی معیت میں ایمان لانے والوں کو رسوا نہ کرنے کا مطلب دو اعتبار سے ہے:

الف: اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں ان میں کسی قسم کی کمی کر کے اپنے رسول کو رسوا نہیں کرے گا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ۔ (۳ آل عمران: ۹) اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا کہ رسول رسوا ہو جائیں۔

ب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دوسرے انبیاء علیہم السلام اور امتوں کے مقابلے میں کم درجے پر فائز کر کے رسوا نہیں کرے گا۔ اس نکتے کو ہم نے امام زین العابدین سید الساجدین علیہ السلام کی دعا کے ایک فقرے سے سمجھا ہے:

وَلَا تَفْضَحْنِی بَیْنَ یَدَی اَوْلِیَائِکَ۔ ( صحیفہ سجادیہ ۔ دعا یوم عرفہ ۔)

اپنے اولیاء کے سامنے مجھے رسوا نہ کر۔

واضح رہے خاصانِ خدا کو قیامت کے دن کی ہولناکی کا علم ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام ابوالانبیاء ہونے کے باوجود اللہ سے دعا کرتے ہیں:

وَ لَا تُخۡزِنِیۡ یَوۡمَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۸۷﴾ (۲۶ شعراء: ۸۷)

اور مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔

فرزند خلیل زین العابدین سید الساجدین علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں:

وَلَا تُخْزِنِی یَوْمَ تَبْعَثُنِی لِلقَائِکَ۔ ( صحیفہ سجادیہ۔ دعائے یوم عرفہ )

جس دن تو مجھے اپنی ملاقات کے لیے اٹھائے گا مجھے رسو ا نہ کر۔

۵۔ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ: آیت کے اس فقرے کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ حدید آیت ۱۲۔

۶۔ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا: قیامت کے نور کی تکمیل کی دعا سے مراد مغفرت ہو سکتی ہے۔ گناہ دھلنے سے نور میں اضافہ ہو گا اور اس سے مراد شفاعت بھی ہو سکتی ہے کہ اپنی اولاد، والدین اور ازواج کی شفاعت کا حق ملنے سے بھی نورمیں اضافہ ہو گا چونکہ اعلیٰ درجے پر فائز لوگوں کو شفاعت کا حق بھی مل جائے گا چنانچہ سورہ رعد آیت ۲۳ میں مذکور ہے۔ روایت کے مطابق ایک تفسیر ائمہ معصومین علیہم السلام جو قیامت کے دن مومنین کے آگے اور دائیں طرف ہوں گے۔ ( الکافی ۱: ۱۹)


آیت 8