زمین کو قابل سکونت بنانے کے چار مراحل


اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی اللہ تو تمہارا رب ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟

3۔کائنات کو چھ مختلف مرحلوں میں پیدا کرنے کے بعد وہ عرش سلطنت پر متمکن ہوا۔ کوئی چیز اس کے قبضۂ اقتدار اور تدبیر سے خارج نہیں ہے اور اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ کے تحت ہو رہا ہے، یعنی اس کے حکم و تدبیر یا اس کے اذن سے ہو رہا ہے اور اس کائنات کی تدبیر و تنظیم کا وہی منتہیٰ ہے۔ اگر کوئی کام اس کے اذن سے ہوتا ہے، مثلاً شفاعت تو بھی مرکز و مصدر تنظیم و تدبیر وہی ذات ہے۔

وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکات رکھ دیں اور اس میں چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے برابر سامان خوراک مقرر کیا۔

10۔ مفسرین اس آیت کو قرآن کے اس مسلمہ اصول پر تطبیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، چھ دنوں میں پیدا کیا اور ان آیات کے مطابق دن چھ نہیں آٹھ دن بنتے ہیں۔ اس لیے مختلف توجیہات و تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ آیت اس بات سے مربوط نہیں ہے کہ آسمان اور زمین کتنے دنوں میں پیدا کئے گئے۔ اگرچہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق کے چار دنوں کا ذکر ہے، باقی کا ذکر نہیں ہے۔کیونکہ پوری کائنات کے پیدا کرنے میں جو چھ دن لگے ہیں، وہ آسمان زمین اور انسان اور ان میں موجود اشیاء سب کے بارے میں ہے۔ جبکہ اس آیت میں وَ مَا بَیۡنَہُمَا کا ذکر نہیں ہے اور اس کی جگہ زمین کی تخلیق کے بعد کے مراحل کے چار ایام کا ذکر ہے، جن کا تخلیق کے چھ دنوں سے ربط نہیں ہے، بلکہ زمین کی تخلیق کے بعد اس میں بسنے والوں کے لیے اسے قابل سکونت بنانے کا ذکر ہے۔