یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۸﴾
۸۔ اے ایمان والو! اللہ کے آگے توبہ کرو خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس دن اللہ نہ اپنے نبی کو رسوا کرے گا اور نہ ہی ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا اور وہ دعا کر رہے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے پورا کر دے اور ہم سے درگزر فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
8۔ نَّصُوۡحًا : صیغہ مبالغہ۔ یعنی خالص ترین توبہ۔ حضرت علیہ السلام سے روایت ہے: توبہ و استغفار کے چھ ستون ہیں: i گزشتہ گناہوں کے لیے ندامت۔ ii عدم اعادہ کا عزم۔ iii وہ تمام فرائض انجام دیں جو چھٹ گئے ہیں۔ iv لوگوں میں سے کسی کا حق تیرے ذمے نہ ہو۔ vگناہ کے ذریعے تیرے بدن کا جو گوشت بنا ہے، وہ غم و اندوہ سے پگھل کر تازہ گوشت بن جائے۔ vi اپنے کو اطاعت کی تلخی چکھا دے، جیسا کہ گناہ کی لذت چکھ لی تھی۔ (مستدرک الوسائل 12: 407 قریب منہ فی الکشاف 4: 569)
یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ : اس روز اللہ اپنے رسول ﷺ اور اہل ایمان کو رسوا نہیں کرے گا۔ اہل ایمان قیامت کے دن جب منافقین کو تاریکی میں دیکھیں گے تو دعا کریں گے رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا ہمارا نور ہمارے لیے پورا کر دیجیے۔ الکافی 1: 19 میں آیا ہے: قیامت کے دن ائمۂ معصومنین علیہ السلام مومنین کے آگے اور دائیں طرف ہوں گے اور انہیں جنت تک پہنچائیں گے۔