وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور ہر قوم کے لیے ایک وقت مقرر ہے پس جب ان کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو نہ ایک گھڑی تاخیر کر سکتے ہیں اور نہ جلدی۔

34۔ہر قوم و ملت کے لیے عروج و زوال ہوتا ہے اور ہر عروج و زوال کے پیچھے اس کے علل و اسباب کارفرما ہوتے ہیں۔ یہی سنت الٰہی ہے جس کا قرآن اکثر حوالہ دیتا ہے۔ مثلاً جب کوئی قوم برائیوں کے ارتکاب میں حد سے گزر جاتی ہے تو اس بدکار قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔

خیانت، بدنظمی، کاہلی اور حکمرانوں کا اپنی عوام پر ظلم، زوال کے علل و اسباب میں سے ہیں۔ قانون فطرت و مکافات عمل میں نظم و ضبط کو ایک معجزانہ دخل ہے۔ دنیا کی بدترین چیز ظلم بھی ایک خاص نظم و ضبط سے کیا جائے تو وہ ظلم محسوس نہیں ہوتا۔ چنانچہ جدید تعلیم یافتہ جاہلیت نے یہی کیا ہے کہ اقوام عالم پر نہایت ہی منظم انداز میں ظلم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ قرآن قوموں کے زوال کے مزید اسباب بھی ذکر کرتا ہے:

1۔ افراد امت اگر ملک کے تدبیر امور میں شریک اور مشیر نہ رہیں بلکہ ان کی حیثیت بے بس فرمانبردار اور بے اختیار مطیع اور منقاد کی سی ہو جائے تو اقتدار والوں کی ہوس رانی کو آزادی مل جاتی ہے اور وہ اس قوم کو قعر مذلت تک پہنچا دیتے ہیں۔

2۔کسی امت اور قوم کے مقدرات پر چند خاندانوں کا تسلط قائم ہو جائے تو اس صورت میں تمام اقدار کو پامال کیا جاتا ہے۔ افراد کی طرح ہر قوم کی ایک طبیعی عمر ہوتی ہے جس طرح بعض صحت اور نفسیات کے اصولوں پر عمل کرنے سے فرد صحت مند ہوتا ہے اور عمر لمبی ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح بعض اصولوں پر عمل کرنے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ مادی تنزل اور ترقی کا دار و مدار مادی علل و اسباب پر ہے۔ اگرچہ ایمان و عبادت کے اپنے اثرات ہیں لیکن یہ چیزیں مادی علل و اسباب کی جگہ نہیں لیتیں۔ مثلاً فصل کے لیے تسبیح و عبادت کھاد کا کام نہیں دے سکتی۔