یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ؕ وَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۵۴﴾

۲۵۴۔ اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس دن کے جس میں نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی کا فائدہ ہو گا اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر اختیار کیا۔

254۔ 1۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس دن تجارت، دوستی اور سفارش کی جگہ وہ مال کام آئے گا جو دنیا میں راہ خدا میں خرچ کیا گیا ہو۔ نجات کا بہترین ذریعہ مال ہے۔ اسی لیے مال کے بارے میں اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ مال اگر رضائے الٰہی کا ذریعہ بن جائے تو بہترین خزانہ اور توشہ آخرت ہے اور اگر مال خود ایک مقصد بن جائے تو اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے۔

2۔ خرچ یا انفاق فی سبیل اللّٰہ میں واجب و مستحب دونوں شامل ہیں۔ خرچ سے مراد مال کا خرچ، علم کا خرچ اور دیگر ہر قسم کے مخارج ہیں۔ اگر کسی کو جاہ و جلالت دی گئی ہو تو یہ بھی اللہ کی طرف سے عطا شدہ رزق ہے۔ اس کا انفاق یہ ہے کہ صاحبان جاہ و منصب اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے بندگان خدا کی خدمت کریں۔ کافر یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور نتیجتاً رزق خدا سے انفاق بھی نہیں کرتے۔ ان کے لیے آخرت میں کوئی مددگار نہ ہو گا۔ تجارت، دوستی اور شفاعت میں سے کوئی ایک چیز بھی ان کے کام نہ آئے گی۔ اس طرح سب سے بڑے ظالم یہی لوگ ہوں گے۔