اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جان رکھو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل، بیہودگی، آرائش، آپس میں فخر کرنا اور اولاد و اموال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش سے عبارت ہے، اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جس کی پیداوار (پہلے) کسانوں کو خوش کرتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر دیکھتے ہو کہ وہ کھیتی زرد ہو گئی ہے پھر وہ بھس بن جاتی ہے جب کہ آخرت میں (کفار کے لیے) عذاب شدید اور (مومنین کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو سامان فریب ہے۔

20۔ دنیا اگر صرف ایک دھوکہ نہ ہوتی اور انسان صرف اسی زندگی کے لیے بنایا گیا ہوتا تو مال و متاع دنیا کی فراوانی سے سکون و اطمینان میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ اس دنیا کے مال و متاع میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے، اسی حساب سے بے اطمینانی میں اضافہ ہوتا ہے اور سکون چھن جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان دنیا کے لیے خلق نہیں ہوا ہے۔

دنیاوی زندگی کو ذریعہ آخرت بنایا جائے تو اس کی وہ صفات نہیں ہوں گی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں، بلکہ حضرت علی علیہ السلام سے اس دنیا کے مثبت پہلو کے بارے میں روایت ہے: اِنَّ الدُّنْیَا۔۔۔ دَارُ غِنًی لِمَن تَزَوَّدَ مِنْھَا وَ دَارُ مَوْعِظَۃٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِھَا مَسْجِدُ اَحِبَّائِ اللہِ وَ مُصَلَّی مَلَائِکَۃِ اللہِ وَ مَھْبِطْ وَحْیِ اللہِ وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَائَ اللہِ۔۔۔ (نہج البلاغۃ نصیحت 121، ص 494) جو یہاں سے زاد راہ لے جانا چاہتا ہے اس کے لیے یہ دنیا دولت کی جگہ ہے، جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ دنیا نصیحت کی جگہ ہے، یہ دنیا اللہ کے دوستوں کی عبادت گاہ، فرشتوں کی سجدہ گاہ، وحی کی بارگاہ اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ (آخرت کا منافع کمانے کی جگہ) ہے۔