وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿ؕ۳۰﴾
۳۰۔ اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔
30۔ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ سے مراد معصیت ہے اور خطاب ان لوگوں سے ہے جو معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں، خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر۔ معصوم اور غیر مکلف اس میں شامل نہیں ہیں، کیونکہ ان سے معصیت سرزد نہیں ہوتی، اس لیے ان پر جو مصیبت آتی ہے وہ ان کے اعمال کی وجہ سے نہیں ہے۔ دوسرے لوگوں کے بارے میں فرمایا: جو آفت تم پر آتی ہے وہ خود تمہارے برے اعمال کا لازمہ ہے۔ اس آیت اور دیگر متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی اعمال و کردار اور کائنات پر حاکم نظام فطرت میں ایک گہرا ربط ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ۔(رعد:11)اسی طرح فرمایا: وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۔(اعراف:96) اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے۔
وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ اور بہت سی معصیتوں سے درگزر فرماتا ہے۔ چنانچہ سورہ نحل میں فرمایا: اگر لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب اللہ گرفت میں لیتا تو روئے زمین پر کوئی ذی روح باقی نہ چھوڑتا۔
یہ کہنا کہ اس آیت کے مخاطبین مشرکین مکہ ہیں، لہٰذا یہ آیت ان کے ساتھ مختص ہے، ناقابل توجہ بات ہے۔ کیونکہ العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ۔ فہم قرآن میں لفظ کی عمومیت دیکھی جاتی ہے، سبب نزول نہیں دیکھا جاتا۔