ذٰلِکَ الَّذِیۡ یُبَشِّرُ اللّٰہُ عِبَادَہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ؕ وَ مَنۡ یَّقۡتَرِفۡ حَسَنَۃً نَّزِدۡ لَہٗ فِیۡہَا حُسۡنًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ﴿۲۳﴾
۲۳۔ یہ وہ بات ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اعمال صالح بجا لاتے ہیں، کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے اور جو کوئی نیکی کمائے ہم اس کے لیے اس نیکی میں اچھا اضافہ کرتے ہیں، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، قدردان ہے۔
23۔ فریقین کے مصادر میں یہ روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کے وہ قرابتدار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہو گئی ہے؟ فرمایا : علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام ہیں۔ درج ذیل اصحاب رسول ﷺ اس کے راوی ہیں: ابن عباس، جابر بن عبد اللہ، ابی امامہ باہلی، علی ابی الطفیل ابو دیلم اور ہبیرۃ۔ ان اصحاب سے امام احمد، طبری، طبرانی، واحدی اور نسائی وغیرہ نے روایت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر 4: 218، 2: 252۔ قربیٰ سے رسول اللہ ﷺ کے زیادہ قریبی رشتہ دار مراد ہیں۔ جناب مولانا مودودی صاحب کو چند اعتراضات ہیں: اول: سورﮤ شوریٰ مکی ہے اور اس وقت تک حضرت علی و فاطمہ علیہما السلام کی شادی تک نہ ہوئی تھی۔ جواب: اول تو بعض روایات کے مطابق یہ آیت مدنی ہے۔ چنانچہ قرطبی و نیشاپوری اور خازن نے اپنی تفسیروں میں، شوکانی نے فتح القدیر:510 میں حضرت ابن عباس اور قتادہ سے صریحاً نقل کیا ہے کہ سورہ شوریٰ مکی ہے، سوائے چار آیتوں کے، جن میں پہلی آیت قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ ہے۔ دوم یہ کہ مصادیق کا عند نزول القرآن موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ مثلاً وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ کے لیے ضروری نہیں کہ اس آیت کے تمام مصادیق عند نزول القرآن موجود ہوں۔
دوسرا اعتراض: رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار بہت تھے صرف عبد المطلب کی اولاد کی محبت کیوں؟
جواب: یہ اعتراض قرآن پر آتا ہے۔ (معاذ اللہ) چونکہ قرآن نے قریبی رشتہ نہیں بلکہ قربیٰ (قریب ترین رشتہ داروں) سے محبت کے لیے کہا۔
تیسرا اعتراض: جو ان کے نزدیک سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
جواب: اول تو ہم اصحاب و تابعین، مورخین اور مفسرین کی لمبی فہرست پیش کر سکتے ہیں جن کے ذوق سلیم نے اس کا تصور ہی نہیں، بلکہ اس کو تسلیم کیا ہے۔ دوم یہ کہ آپ کے ذوق کے خلاف ہوتا رہے، لیکن انبیاء علیہ السلام کے ذوق کے خلاف نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام امتحانات الٰہی میں کامیاب ہونے کی پاداش میں اپنی اولاد کے لیے امامت کی تمنا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں : فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِيْٓ اِلَيْہِمْ ۔ (ابراہیم: 37) اے اللہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما۔
سوم: یہ کہ آنحضور ﷺ کی رحلت کے بعد واقعات اور تاریخی حقائق یعنی اہل بیت رسول ﷺ پر ڈھائے جانے والے مظالم، حق تلفیوں وغیرہ سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے محبت ذوالقربیٰ کیوں لازم قرار دی۔
آخر میں لکھتے ہیں اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں، کفار مکہ ہیں۔ کفار حضور ﷺ کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ ان سے اجر رسالت مانگیں۔ وہ الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے۔
جواب: اولاً تو اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان ہیں، جس پر خود سیاق آیت شاہد ہے کہ اہل ایمان کو بشارت دیتے ہوئے اجر رسالت کا ذکر آیا ہے۔ ثانیاً: آپ کا یہ تبصرہ اس تفسیر پر زیادہ منطبق ہوتا ہے جس کے مطابق اس سے وہ رشتہ داری مراد ہے جو حضور ﷺ کو کفار قریش سے تھی۔ کیونکہ خود ان کے بقول کفار حضور ﷺ کے اس کام کو خدمت نہیں جرم سمجھ رہے تھے تو اس جرم کے عوض حضور ﷺ قریش سے رشتہ داروں کی محبت کی اجرت مانگ رہے ہیں؟ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ۔