وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡ لَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ ؕ ءَؔاَعۡجَمِیٌّ وَّ عَرَبِیٌّ ؕ قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّ شِفَآءٌ ؕ وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمۡ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوۡنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں قرار دیتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات کو کھول کر بیان کیوں نہیں کیا گیا؟ (کتاب) عجمی اور (نبی) عربی؟ کہدیجئے: یہ کتاب ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بھاری پن (بہرا پن) ہے اور وہ ان کے لیے اندھا پن ہے، وہ ایسے ہیں جیسے انہیں دور سے پکارا جاتا ہو۔

44۔ یہ قرآن اہل ایمان کے لیے ہدایت و شفا ہے، جبکہ یہی قرآن ان منکر وں کے خلاف ایک حجت ہے جن کے لیے یہ قرآن دور سے آنے والی آواز کی طرح ہے جو سنائی دیتی ہے، لیکن سمجھ میں نہیں آتی۔