فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ﴿۵۵﴾
۵۵۔ پس آپ صبر کریں،یقینا اللہ کا وعدہ برحق ہے اور اپنے گناہ کے لیے استغفار کریں اور صبح و شام اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کریں۔
55۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تاریخ بیان کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا: جب طاغوتوں کا انجام آپ نے دیکھ لیا تو درپیش مشکلات کے لیے صبر سے کام لیں۔ ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی مدد کرنے والے ہیں۔ وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ اپنے گناہ کے لیے استغفار کر۔یعنی اپنے قصور کے لیے تلافی طلب کر۔ واضح رہے، ہر ایک کا قصور اس کے مقام کے مطابق ہوتا ہے۔ غیر معصوم کا قصور یہ ہے کہ امر مولا کی مخالفت کرے۔ معصوم کا قصور یہ احساس ہے کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔ چنانچہ معرفت الٰہی میں مستغرق ہونے کے باوجود یہ احساس ہے: ما عرفنٰک حق معرفتک ۔ (بحار الانوار 68:23) چنانچہ نبی اور رسول یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس کا برگزیدہ ہوں کہ مجھے اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ لیکن کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں نے بندگی کا حق ادا کیا ہے۔ اس آیت میں وعدﮤ نصرت کے بعد استغفار کا حکم اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی تحریک میں کچھ افراد کی وجہ سے جو قصور ہے، اس کی تلافی کر۔ چونکہ غفران کے ایک معنی تلافی کے ہیں۔