وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ یُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا زِلۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّا جَآءَکُمۡ بِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ قُلۡتُمۡ لَنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رَسُوۡلًا ؕ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ مُّرۡتَابُۨ ﴿ۚۖ۳۴﴾
۳۴۔ اور بتحقیق اس سے پہلے یوسف واضح دلائل کے ساتھ تمہارے پاس آئے مگر تمہیں اس چیز میں شک ہی رہا جو وہ تمہارے پاس لائے تھے یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو تم کہنے لگے: ان کے بعد اللہ کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کرے گا اس طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے جو تجاوز کرنے والے، شک کرنے والے ہوتے ہیں۔
34۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے دور حکومت میں عدل و انصاف کی ایک لازوال مثال قائم کی۔ خواب کی صحیح تعبیر کے ذریعے تمہیں اور بہت سے انسانوں کو قحط سے بچایا۔ تم نے ان کی نبوت پر شک کیا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو تم نے کہا: اب عدل و انصاف کا دور دوبارہ نہیں آ سکتا۔ یعنی جب تمہیں ہدایت مل رہی ہوتی ہے، اس وقت تم اسے ٹھکرا دیتے ہو، لیکن اس ہدایت کے اٹھنے کے بعد تمہیں اس کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔