قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡخُلَطَآءِ لَیَبۡغِیۡ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیۡلٌ مَّا ہُمۡ ؕ وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّہٗ وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّ اَنَابَ ﴿ٛ۲۴﴾۩
۲۴۔ داؤد کہنے لگے: تیری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے یقینا یہ تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں، پھر داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور عاجزی کرتے ہوئے جھک گئے اور (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔
24۔ فیصلہ سنانے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام فوراً سمجھ گئے کہ یہ کسی نزاع کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ میری آزمائش کے لیے ایک ڈرامائی صورت تھی جو فرشتوں نے صرف مجھے آزمانے کے لیے پیش کی تھی۔ اگر یہ خطا کسی حقیقی نزاع کی قضاوت کے بارے میں ہوتی تو سچ مچ قابل سرزنش تھی، لیکن یہ تو ایک تمثیلی نزاع کے بارے میں تھی۔ وہ خطا جو حضرت داؤد علیہ السلام سے سرزد ہوئی، کیا تھی؟ اس بارے میں روایات اور مفسرین میں بہت اختلاف ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ایک روایت کے مطابق ان کی خطا یہ تھی کہ ان کو خیال ہوا کہ شاید ان سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہ ہے۔ اس پر حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لیے دو فرشتے آئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی کا بیان سنتے ہی اس کے حق میں فیصلہ دے دیا اور مدعی سے گواہ طلب نہ کیا۔ یہ عمل اللہ کو پسند نہ آیا۔
بعض حضرات جو روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام اوریا کی بیوی پر عاشق ہو گئے اور اوریا کو جنگ میں بھیج کر مروایا، پھر اس سے شادی کی، ایک نبی پر صریح بہتان ہے۔ اس روایت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: جو یہ روایت بیان کرے، میں اسے ایک سو ساٹھ کوڑے ماروں گا، جو انبیاء علیہ السلام پر بہتان تراشی کی سزا ہے۔ (زبذۃ التفاسیر 6: 23)