وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ وَ اِنۡ تَدۡعُ مُثۡقَلَۃٌ اِلٰی حِمۡلِہَا لَا یُحۡمَلۡ مِنۡہُ شَیۡءٌ وَّ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی ؕ اِنَّمَا تُنۡذِرُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ؕ وَ مَنۡ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفۡسِہٖ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی (گناہوں کے) بھاری بوجھ والا اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی کو پکارے گا تو اس سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا خواہ وہ قرابتدار ہی کیوں نہ ہو، آپ تو صرف انہیں ڈرا سکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے ہی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے۔

18۔ یہ نظام عدل الہٰی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار اور اپنے کیے کا خود جواب دہ ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ تم میری ذمہ داری پر یہ کام کرو، اگر یہ گناہ ہوا تو تمہارا بار گناہ میں اٹھاؤں گا، تو یہ ایک صریح جھوٹ ہے۔ قیامت کے دن نہایت قریبی رشتہ دار بھی اس کا کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا بلکہ اس دن انسان اپنے والدین اور اولاد کو دیکھ کر دور بھاگ جائے گا تاکہ وہ کہیں کسی حق کا مطالبہ نہ کریں۔