وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمۡ اَزۡوَاجًا ؕ وَ مَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِہٖ ؕ وَ مَا یُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِہٖۤ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑا بنا دیا اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اللہ کے علم کے ساتھ اور نہ کسی زیادہ عمر والے کو عمر دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگر یہ کہ کتاب میں (ثبت) ہے، یقینا یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے۔

11۔ اللہ کے ہاں لوح محفوظ میں پہلے سے یہ ساری باتیں لکھی ہوئی ہیں کہ کس کی کیا عمر ہو گی؟ اسے تقدیر کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مطلب نظام اور قانون ہے۔ اللہ کے ہاں ہر کام ایک نظام کے تحت انجام پاتا ہے۔ اگر تقدیر نہ ہوتی تو بدنظمی و اندھیر نگری ہوتی۔ تقدیر کا مطلب جبر نہیں ہے، بلکہ تقدیر کا مطلب اختیار و انتخاب ہے۔ اگر کسی شخص کے لیے ایک تقدیر ہوتی تو جبر ہوتا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ہر ایک شخص کو بہت سے مقدرات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام ایک ایسی دیوار سے ہٹ گئے جو گرنے والی تھی تو لوگوں نے کہا: کیا آپ علیہ السلام تقدیر خدا سے بھاگ رہے ہیں؟ فرمایا: افر من قدر اللہ بقدر اللہ ۔ (شرح نہج البلاغۃ 8: 298)میں اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگ رہا ہوں۔ البتہ اللہ کے علم میں ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے کون سا راستہ اختیار کرنے والا ہے اور کن حالات سے دو چار رہے گا اور کون سے اسباب و علل کے انتخاب کے تحت کیا عمر پانے والا ہے۔