قُلۡ مَا سَاَلۡتُکُمۡ مِّنۡ اَجۡرٍ فَہُوَ لَکُمۡ ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴿۴۷﴾
۴۷۔ کہدیجئے: جو اجر (رسالت) میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے ہی لیے ہے، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
47۔ جو صلہ میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے لیے ہے۔ اس سے ایک تو یہ مطلب واضح ہوا کہ حضور ﷺ نے امت سے اجر رسالت طلب فرمایا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس اجر میں رسول اللہ ﷺ کا ذاتی مفاد نہیں ہے، بلکہ خود امت کا مفاد ہے۔ جبکہ جو اجر رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اس وضاحت سے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اجر رسالت طلب کرنا ثابت ہوا جو اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (یونس: 72) میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے، کے منافی بھی نہیں ہے۔