وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ہے لہٰذا آپ اس (قرآن) کے ملنے میں کسی شبہے میں نہ رہیں اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت(کا ذریعہ) بنایا۔

23۔ یہ قرآن کا طرز خطاب ہے کہ جسے بہت زیادہ اہمیت دینا مقصود ہو وہاں خطاب براہ راست رسول ﷺ سے ہوتا ہے اور بتانا دوسروں کو مقصود ہوتا ہے۔ لِّقَآئِہٖ میں ضمیر الۡکِتٰبَ کی طرف ہے اور لِقَآءَ تَلَقِّی کے معنوں میں ہے، جیسے کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا میں ہے۔ یعنی ہم نے جیسے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی ہے، آپ ﷺ کو بھی کتاب دی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کو اس کتاب (قرآن) کے ملنے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر اس لیے ہوا کہ رسالتمآبﷺ کے ساتھ آپ علیہ السلام کی بہت سی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔