وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍۭ بَطِرَتۡ مَعِیۡشَتَہَا ۚ فَتِلۡکَ مَسٰکِنُہُمۡ لَمۡ تُسۡکَنۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا ؕ وَ کُنَّا نَحۡنُ الۡوٰرِثِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے تباہ کر دیا جن کے باشندے اپنی معیشت پر نازاں تھے؟ ان کے بعد ان کے مکانات آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ہم ہی تو وارث تھے۔

58۔ وہ بعض مفادات کی خاطر ایمان نہیں لا رہے تھے، جبکہ تاریخی حقائق کے مطابق ایمان نہ لانا ہی ان کے مفادات کے منافی تھا۔

5۔ تباہی ان دو عوامل کی وجہ سے آتی ہے: رسول کا انکار اور ظلم کا ارتکاب۔

مکہ کے مشرکین کی طرف اشارہ ہے کہ ان پر عذاب نازل ہونے کی تمام شرائط موجود ہیں۔ ان کے صدر مقام مکہ میں رسول ﷺ مبعوث ہوئے۔ اس رسول ﷺ کی طرف سے آیات الٰہی کی تلاوت بھی ہو رہی ہے اور اہل مکہ اس رسول پر ظلم کا پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ صدر مقام میں رسول اس لیے بھیجے جاتے ہیں کہ صدر مقام پر مترتب ہونے والے اثرات دیگر مقامات پر پھیل جاتے ہیں۔ اس لیے بڑے انبیاء انسانی تہذیب و تمدن کے بڑے بڑے مراکز میں مبعوث ہوئے ہیں۔