وَ اَنۡ اَلۡقِ عَصَاکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہۡتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدۡبِرًا وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ ؕ یٰمُوۡسٰۤی اَقۡبِلۡ وَ لَا تَخَفۡ ۟ اِنَّکَ مِنَ الۡاٰمِنِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور اپنا عصا پھینک دیجئے، پھر جب موسیٰ نے عصا کو سانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا، (ہم نے کہا) اے موسیٰ! آگے آئیے اور خوف نہ کیجیے، یقینا آپ محفوظ ہیں۔

31۔ اژدھے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف بتاتا ہے کہ معجزہ فعل خدا ہے، ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے معجزے سے خوف نہ آتا۔

آج یہ بات مسلم ہے کہ تمام مادی موجودات کا ابتدائی خمیر اور عناصر اولیہ ایک ہے۔ ان عناصر کی ترکیب و ترتیب مختلف ہونے سے چیزیں مختلف ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا عصا اور اژدھے کے عناصر ایک ہیں۔ اللہ اپنی قدرت کن فیکونی سے ان عناصر کی ترتیب بدل سکتا ہے اور عصا سے اژدھا اور اژدھے سے عصا بنا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات جو ہم نے پہلے بھی لکھی ہے، واضح ہو جاتی ہے کہ معجزہ عام طبیعیاتی دفعات کے مطابق نہ سہی، لیکن قانون فطرت کے دائرے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ معجزے کے علل و اسباب تمام انسانوں کے لیے قابل تسخیر نہیں ہیں۔