عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ﴿۱۹۴﴾

۱۹۴۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ،

194۔ قلب سے مراد عضو صنوبری نہیں جو سینے کے بائیں جانب دھڑکتا ہے، بلکہ مراد نفس کے اندر موجود وہ مرکزی قوت ہے جو حقیقت میں شعور، ارادے اور ادراک کا مرکز ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ وحی کو ظاہری حواس سے نہیں لیتے تھے۔ یہ حواس تو دوسروں کے پاس بھی ہیں۔ اس کے باوجود وحی کے نزول کے وقت لوگ بیٹھے ہوتے تھے، وہ نہ کوئی آواز سنتے تھے، نہ کسی کو دیکھ لیتے تھے، بلکہ رسول ﷺ وحی کا اس طرح ادارک کرتے تھے، جس طرح اپنے وجود کا ادراک کرتے ہیں۔ اسی لیے وحی کے ادراک میں کسی قسم کے شبہ اور غلطی کا امکان نہیں ہے۔ جب کہ حواس کے ذریعے جو ادراک ہوتا ہے، غیر رسول کے لیے اس میں اشتباہ کا امکان رہتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے حواس کے چھ سو اشتباہات گنے ہیں۔