لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ جس دنیا کو چھوڑ کر آیا ہوں شاید اس میں عمل صالح بجا لاؤں، ہرگز نہیں، یہ تو وہ جملہ ہے جسے وہ کہدے گا اور ان کے پیچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے۔

100۔ ارتقائی سفر میں واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ جس طرح انسان عالم جنین سے عالم نطفہ کی طرف واپس نہیں آ سکتا، اسی طرح عالم برزخ سے بھی واپسی ممکن نہیں ہے۔ برزخ، قبر سے لے کر قیامت تک کے عرصے کا نام ہے۔ برزخ دو چیزوں کے درمیان حد فاصل کو کہتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے: القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر النار (الخرائج 1: 172) قبر جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہو گی یا آتش کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔

وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ : اس آیت میں فرمایا: موت اور قیامت کے درمیان ایک برزخ یعنی حد فاصل ہے۔ لیکن اس حد فاصل میں زندگی بھی ہے۔ اس کی صراحت نہیں ہے، البتہ شہیدوں کی حیات بزرخی کے بارے میں صراحت موجود ہے۔ حیات برزخی کی نوعیت بھی ہمارے لیے معلوم نہیں ہے، چونکہ یہ حیات، دنیوی حیات کی طرح ہرگز نہیں۔ ہمارے نزدیک حیات برزخی مومن خالص اور کافر خالص کے لیے موجود ہے۔ باقی انسانوں کے لیے قبر کے سوال کے بعد حیات برزخی نہیں ہے۔ بعض اہل تحقیق نے برزخی زندگی کو عالم خواب کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ کچھ کو بہت شیریں خواب آتا ہے اور بعض کو ڈراونا خواب اور بعض کو کوئی خواب نہیں آتا۔