وَ لَوِ اتَّبَعَ الۡحَقُّ اَہۡوَآءَہُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ بَلۡ اَتَیۡنٰہُمۡ بِذِکۡرِہِمۡ فَہُمۡ عَنۡ ذِکۡرِہِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾

۷۱۔ اور اگر حق ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق چلتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ ہو جاتے، بلکہ ہم تو ان کے پاس خود ان کی اپنی نصیحت لائے ہیں اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑتے ہیں۔

71۔ لوگوں کی خواہشات ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہوتی ہیں اور تصادم کا نتیجہ فساد ہے، جبکہ حق سب کے لیے یکساں ہوتا ہے جس میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ لہٰذا حق کبھی خواہشات کے تابع نہیں ہو سکتا۔ دوسرے لفظوں میں دین حق فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ حق اگر خواہشات کے تابع ہو جائے تو فطرت کو چھوڑنا پڑے گا اور فطرت کو چھوڑنے میں آسمانوں اور زمین کی تباہی ہے۔ درحقیقت یہ فرض محال ہے، چونکہ حق کے لیے ممکن ہی نہیں کہ لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرے۔ لوگوں کی خواہشات یہ ہیں کہ ایک رب کی جگہ کئی ارباب ہوں اور ایک معبود کی جگہ کئی معبود ہوں۔ حق امر واقع کو کہتے ہیں اور امر واقع میں رب اور معبود ایک ہے، کئی ہو نہیں سکتے۔ اگر بفرض محال ہو جائیں تو عالم تباہ ہو جائے: لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۔(الانبیاء: 22)