اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ﴿۴۶﴾

۴۶۔ کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔

46۔ واضح رہے کہ قرآن ادب و محاورہ کی زبان میں بات کرتا ہے، چنانچہ وہ اسی محاورہ کے تحت خود اپنی ذات کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر کرتا ہے بَلۡ یَدٰہُ مَبۡسُوۡطَتٰنِ ۙ یُنۡفِقُ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ (مائدہ: 64) اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے انفاق کرتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی محاورہ ہے کہ بات میرے دل میں ہے، یہ راز میرے سینے میں ہے اور سینہ بہ سینہ بھی ایک محاورہ ہے، ورنہ نہ تو اللہ کے لیے دو ہاتھ ہیں، نہ ہی سوچنے کا کام دل سے لیا جاتا ہے اور نہ راز سینے میں ہوتے ہیں، یہ سب سائنسی اعتبار سے دماغ کا کام ہے، مگر محاورۃً دل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔