قَالُوۡا مَاۤ اَخۡلَفۡنَا مَوۡعِدَکَ بِمَلۡکِنَا وَ لٰکِنَّا حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِیۡنَۃِ الۡقَوۡمِ فَقَذَفۡنٰہَا فَکَذٰلِکَ اَلۡقَی السَّامِرِیُّ ﴿ۙ۸۷﴾
۸۷۔ انہوں نے کہا: ہم نے آپ سے وعدہ خلافی اپنے اختیار سے نہیں کی بلکہ ہوا یہ کہ ہم پر قوم کے زیورات کا بوجھ لادا گیا تھا تو ہم نے اسے پھینک دیا اور سامری نے بھی اس طرح ڈال دیا۔
87۔ سامری کسی قبیلہ، مقام یا نسل کی طرف نسبت ہو سکتی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں ایک قوم سمیر کے نام سے مشہور تھی۔ ممکن ہے اس قوم سے تعلق رکھنے والے مصر میں آباد ہوئے ہوں جو سامری کہلاتے ہوں اور ممکن ہے سمرون نامی شخص کی اولاد ہوں، جیسے صاحب تفسیر من ھدی القرآن لکھتے ہیں: سامری سمرون کی اولاد میں سے تھا اور اس کے باپ کا نام یشاکر تھا جو یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا۔
سامری سے مراد ہو سکتا ہے سامری العقیدہ ہو۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں گوسالہ پرست کو سامری نہیں کہتے تھے تاہم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کئی صدیوں بعد ایک نسل پیدا ہوئی تھی جو گوسالہ پرستی میں شہرت رکھتی تھی۔ اس گوسالہ پرست قوم کو سامری کہتے تھے۔ قرآن نے گوسالہ پرست شخص کے لیے وہی نام دیا ہو جو نزول قرآن کے وقت یہودیوں میں رائج تھا، اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں یہ نام رائج نہ تھا، بہرحال مستشرقین کا یہ بہتان نہایت ہی بیہودہ اور بے بنیاد ہے کہ سامری کے نام سے شہرت پانے والی قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صدیوں بعد وجود میں آئی ہے۔ قرآن کے مصنف نے لاعلمی میں اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معاصر بتایا ہے۔