فَکُلِیۡ وَ اشۡرَبِیۡ وَ قَرِّیۡ عَیۡنًا ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِیۡۤ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُکَلِّمَ الۡیَوۡمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾
۲۶۔ پس آپ کھائیں اور پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہدیں: میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے اس لیے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔
26۔ یہاں سے اصل پریشانی کے حل کا بیان شروع ہو گیا ہے کہ بچے کے بارے میں نہ آپ کو پریشانی ہو گی اور نہ بولنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ آپ چپ کا روزہ رکھ لیں، مسئلے کا حل ہمارے ذمے ہے۔ واضح رہے اس زمانے کی شریعت میں چپ کا روزہ رکھنے کا شرعی جواز تھا جبکہ اسلامی شریعت میں یہ حکم منسوخ ہے۔