فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ اِلٰی جِذۡعِ النَّخۡلَۃِ ۚ قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا﴿۲۳﴾
۲۳۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگیں: اے کاش! میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔
23۔ ایک باعفت و باغیرت دوشیزہ کے ہاں بن شوہر بچہ پیدا ہو جائے تو اس کا یہی حال ہونا چاہیے جس کا اظہار حضرت مریم (س) کر رہی ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم (س) کو علم تھا کہ یہ بچہ اللہ کی طرف سے معجزانہ طور پر پیدا ہو رہا ہے تو انہیں گھبرانا نہیں چاہیے تھا بلکہ اللہ پر بھروسا کر کے مطمئن ہونا چاہیے تھا۔ اس کا جواب حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی روایت میں ملتا ہے جس میں آپ علیہ السلام نے اس پریشانی کی وجہ بیان فرمائی ہے: لانہا لم ترفی فی قومھا رشیدا ذا فراسۃ ینزھہا عنا السوء ۔ (بحار الانوار 14: 226) یعنی کیونکہ مریم (س) سمجھتی تھیں کہ ان کی قوم میں کوئی فہم و فراست کا مالک شخص نہیں ہے جو مریم (س) کو اس بدنامی سے بچا لے۔