وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۸۵﴾

۸۵۔ اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: روح میرے رب کے امر سے متعلق (ایک راز) ہے اور تمہیں تو بہت کم علم دیا گیا ہے۔

85۔ روح: اس حقیقت کا نام ہے جس سے حیات کی بنیاد پڑتی ہے۔ اسی سے علم اور ہدایت کو بھی روح کہتے جن سے حیات مزید فعال ہو جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن اور وحی کو روح کہا گیا ہے۔

سوال حقیقت حیات سے ہے، جو ابھی تک انسان کے لیے ایک سربستہ راز ہے۔

جواب میں اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا، بلکہ اجمالاً فرمایا کہ یہ عالم امری سے متعلق ہے۔ ممکن ہے عالم خلقی کی باتیں قابل وصف و بیان ہوں، کیونکہ یہ علل و اسباب کے تحت ہوتے ہیں جب کہ عالم امری، کن فیکونی ہوتا ہے۔ اس کی علت بس ارادہ الٰہی ہے۔

تاہم سائنسدانوں کو اس سلسلے میں کچھ پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ 26 مارچ، 2000 ء کو ایک عظیم انکشاف کا اہم ترین دن قرار دیا گیا او دعویٰ کیا گیا کہ اس روز سینہ کائنات میں پوشیدہ ایک راز، رازِ حیات سے پردہ اٹھ گیا اور انسانی D.N.A میں موجود تین ارب سالموں کی منظم ترتیب کے ذریعے جینیاتی کوڈ کا معمہ حل ہو گیا۔ اس انکشاف سے یہ بات واضح ہو گئی کہ تمام زندہ موجودات کے لیے جبلتی ہدایات اللہ تعالیٰ نے خلیات (cells) کے مرکزی حصے D.N.A میں ودیعت فرمائی ہیں جو تین ارب چھوٹے سالموں پر مشتمل ہے اور حیات کا راز انہی سالموں اور ان کی منظم ترتیب میں پوشیدہ ہے۔ تفصیل کے لیے ہماری تفسیر کا مطالعہ فرمائیں۔