وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَہَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ تَتَّخِذُوۡنَ اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ اَنۡ تَکُوۡنَ اُمَّۃٌ ہِیَ اَرۡبٰی مِنۡ اُمَّۃٍ ؕ اِنَّمَا یَبۡلُوۡکُمُ اللّٰہُ بِہٖ ؕ وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ مَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۹۲﴾
۹۲۔ اور تم اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے پوری طاقت سے سوت کاتنے کے بعد اسے تار تار کر ڈالا، تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے، اس بات کے ذریعے اللہ یقینا تمہیں آزماتا ہے اور قیامت کے دن تمہیں وہ بات کھول کر ضرور بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے۔
92۔ کوئی قوم کسی دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتی ہے تو اس معاہدے کی پابندی کرنا ایک انسانی و اخلاقی فریضہ ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے، خواہ دوسرا فریق مسلم ہو یا غیر مسلم، ہدایت یافتہ ہو یا گمراہ۔ وفائے عہد چونکہ ایک انسانی مسئلہ ہے، لہذا فریق مخالف کو نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کون ہے، بلکہ معاہدہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے حریف کو گمراہ خیال کر کے اس کے ساتھ عہد شکنی، کذب و افترا اور بہتان تراشی کرتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی فریق حق پر ہی ہو اور اس کا فریق مقابل باطل ہی ہو تو بھی عہد شکنی، مکر و فریب کرنا ایسا جرم ہے جس کے بارے میں بروز قیامت سوال ہو گا اور الہی امتحان میں ناکام ثابت ہو گا۔