وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں گھر (چھتے) بنائے۔

68۔ 69 i۔ مکھیوں کا گھر (چھتا) معماری کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے، کیونکہ مسدس شکل میں کوئی کونہ بیکار نہیں جاتا ii۔ پھولوں کی جڑوں میں موجود شکر کا خاص مادہ چوستی ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ اس سے پھلوں پر بہت ہی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں iii۔ غذا کی تلاش میں نکلنے والی مکھی کو غذا کا ذخیرہ کہیں نظر آئے تو چھتے میں واپس آتی ہے اور ایک خاص قسم کے رقص کے ذریعہ دائرہ بناتی ہے اور اس دائرے کو مخصوص زاویے سے کاٹتی ہے جس سے دوسری مکھیوں کو پتہ چلتا ہے کہ غذا کس سمت میں اور کتنے فاصلہ پر ہے۔iv۔ انسانی آنکھ میں دو عدسے ہوتے ہیں، جبکہ شہد کی مکھی کی ہر آنکھ میں چھ ہزار عدسے ہوتے ہیں، جن کی مدد سے وہ باریک سے باریک جراثیم اور گرد و غبار کو دیکھ سکتی ہے۔ یہ ہیں وہ راہیں جو اللہ نے ان کے لیے تسخیر کی ہیں۔ v۔ اگر کوئی مکھی گندگی پر بیٹھ چکی ہو تو دربان اسے چھتے کے باہر روک دیتا ہے اور ملکہ اس کو قتل کر دیتی ہے۔ قدرت نے ان مکھیوں کو مختلف مواد کا تجزیہ کرنے کی ایسی صلاحیت دے رکھی ہے کہ انسان بڑی بڑی لیبارٹریوں میں ہی ایسا کر سکتے ہیں۔ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ۔